سنگین غداری مقدمے کا فیصلہ:  چند احمقانہ معروضات 

ایمل خٹک 

مشرف سنگین غداری کیس کے فیصلے کو خلاف آئین , اخلاق ، شریعت ، تہذیب وغیرہ وغیرہ کہنے والے اکثر وہ لوگ ہیں میری مراد وینا ملک سے لیکر عمران خان اور عامر لیاقت سے لیکر شیخ رشید تک جو اصول پسندی اور جمہوری روایات کی پاسداری اور آمرانہ قوتوں کی مخالفت کا شاندار ریکارڈ رکھتی ہے۔   یہ تمام شخصیات ماشاء اللہ اعلی اخلاق کے نادر نمونے ہیں ، زندگی شریعت کے مطابق گزار رہے ہیں اور اندرون ملک اور بیرون ملک ان کی تہذیب اور شائستگی کی ڈنکے بج رہے ہیں ۔ 

فیصلے کی مخالفین جرم کی نوعیت کی بجائے سزا کے طریقہ کار یعنی مشرف کی لاش کو ڈی چوک میں پر لٹکانے کی بات کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں مگر فوجی آمر نے جو جرم کیا اس جرم کی سنگینی اور مضر اثرات پر خاموش ہیں۔ منافقت کی انتہا دیکھئے کہ یہی عمران خان اور اس کے رفقاء اسی ڈی چوک میں دھرنے کے دوران صبح و شام سیاستدانوں کو پھانسی دینے ، لاشیں لٹکانے اور لاشوں کو گھسیٹنے کی باتیں کرتے تھے اور اب بھی کررہے ہیں ۔ 

سنگین غداری کیس کے فیصلے کے مخالفین کا ایک اور اعتراض سابق آرمی چیف کو غدار کہنے پر ہے۔ان  کو یہ سادہ سی بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل چھ کے تحت آئین توڑنا سنگین غداری ہے ۔ اور رائج الوقت قانون کے تحت آئین توڑنے والا غدار ہی کہلاتا ہے ۔ فوجی آمر اور سابق آرمی چیف پرویز مشرف پر سنگین غداری کا مقدمہ وفاقی حکومت کی درخواست پر درج کیا گیا تھا ۔ یہ اور بات ہے وفاقی حکومت میں اخلاقی جرات بھی نہیں کہ اپنے موقف پر ڈٹ جائے بلکہ فیصلہ آنے کے بعد وفاقی حکومت اس کی مخالفت میں پیش پیش ہے ۔

جہاں تک مشرف کو غدار کہنے کی بات ہے تو اور تو کئی سابق فوجی جنرل ان کو کئی حوالوں سے یہ لقب دیتے رہے ہیں ۔ مثلا جنرل (رجمشید گلزار کیانی،جنرل (راسد درانی ،جنرل (رضیاء الدین بٹ نے اسکو کو غدار کارگل جبکہ جنرل (ر) شاھد عزیز انکو غدار امت اور جنرل (ر) حمید گل انکو امریکی ایجنٹ کہتے تھے۔  ایمرجنسی کی نفاذ کے خلاف وکلاء تحریک کے دوران جس کا ایک مطالبہ اس وقت کے فوجی آمر کے خلاف آئین توڑنے پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ تھا میں کئی ریٹائرڈ فوجی افسران حصہ لیتے رہے ہیں ۔ 

اس طرح جہاں تک ایمرجنسی کی نفاذ کا تعلق ہے تو فوجی آمر کےکئی فوجی رفقاء مثلا جنرل (ر) شاھد عزیز کی کتاب وغیرہ کے مطابق فوج حتی کہ اعلی فوجی قیادت میں بھی ایمرجنسی کی مخالفت موجود تھی ۔ اس طرح موجودہ صدر اور وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے کئی راہنماوں نے ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف وکلاء تحریک میں بھرپور حصہ لیا تھا جبکہ موجودہ صدر اور وزیراعظم اسٹبلشمنٹ کی بیساکھیوں پر مسند اقتدار  تک پہنچنے اور اسٹبلشمنٹ کی نیاز مندی سے پہلے سابق فوجی آمر کےخلاف آرٹیکل چھ کے تحت کاروائی کا مطالبہ کرتے تھے۔ 

پرویز مشرف کو سزا سے بچانے والوں کی بدنیتی اور موقف کی کمزوری اس امر سے بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اگر فیصلہ واقعی غلط بھی ہے تو اپیلیٹ کورٹ جانے کی بجائے جج کیخلاف سپریم  جوڈیشل کونسل ریفرنس بھیجنے ، ججوں اور عدلیہ کیخلاف ڈس انفارمیشن مہم وغیرہ سے عدلیہ کو دبانے اور اثرانداز ہونے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں ۔ 

بہت سے ادارے ایک فوجی ڈکٹیٹر کو بچانے کیلئے اپنی وقار اور ساکھ کو داؤ پر لگا رہے ہیں ۔ جنرل (ر) شاھد عزیز کی طرح کئی جنرلوں نے سابق آرمی چیف اور فوجی آمر کے ایمرجنسی کے نفاذ سمیت کئی ناعاقبت فیصلوں سے اپنے آپ کو الگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور بالواسطہ یا بلاواسطہ اسے ایک فرد کی ذاتی مفاد میں کئے گئے فیصلے ثابت کرنے کی کوشش کی اور ادارے کو فرد واحد کے غلط فیصلوں سے لاتعلق اور الگ کرنے کی کوشش کی ۔

مگر جنرل (ر) راحیل شریف اور اس کے بعد کئی شخصیات نے جنرل مشرف کو بچانے کیلئے فرد اور ادارے کی فرق مٹانے کی کوشش کی ۔ رہی سہی کسر سنگین غداری کیس میں سابق فوجی آمر کو سزائے موت دینے کے فیصلے کے تناظر میں فوجی ترجمان نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں فوج کو ایک فیملی سے تشبیہ دیکر پوری کی۔

Comments are closed.