عالمگیر وزیر کو کیوں اغوا کیا گیا ہے؟


محمد زبیر

پاکستان بھر میں سٹوڈنٹ یونین کے حق میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرنے والے ہزاروں طلباء و طالبات میں صرف ایک طالب علم عالمگیر وزیر کو کیوں غائب کیا گیا؟‎‫شاید اسکی تقریر کا متن ہمیں کوئی سراغ دے سکے، جس میں لگتا ہے کئی “سرخ لکیروں” یعنی ریڈ لائنز کو کراس کیا گیا۔ اور وہ سرخ لکیریں کیا ہیں؟ ملاحظہ فرمائیے اور یہ دیکھیے کہ آپ بیشک سرخ انقلاب کی بات کرسکتے ہیں لیکن ان سرخ لکیروں کو کراس نہیں کرسکتے۔

عالمگیر وزیر کی لڑکھڑاتی اردو سے بھی صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ ایک پرائی زبان میں طلباء کے مجمع سے مخاطب تھا۔ اور اس کا جرم یہ ٹھہرا کہ اس نے اپنی مادری زبان کی بات کی۔ اس نے کہا کہ اس بدمعاش ریاست اور اسکے اداروں نے پشتونوں پر بالجبر اردو زبان مسلط کی اورکہا کہ طلباء یونین کی بحالی کیساتھ ساتھ طلباء یہ مطالبہ بھی کریں کہ پشتو، پنجابی، سرائیکی، سندھی اور دیگر زبانوں کو اپنے اپنے صوبوں اور علاقوں کے تعلیمی نصاب میں لازماً شامل کیا جائے۔

پاکستان کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی اردو نہ بولنے والی اقلیتی اور اکثریتی قوموں نے اپنی اپنی مادری زبانوں کی بات کی تو ان کے ساتھ اِس ریاست اور اسکی فوج نے کیا سلوک کیا۔ 1952 میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں اکثریتی زبان بنگالی کی بات کرنے والے اساتذہ اور طلباء کو جس بے دردی سے قتل کیا وہ ہم سب کو معلوم ہے۔ اور آج دنیا میں ہر سال مادری زبان کا دن اسی ریاستی دہشتگردی کا شکار ہونے والوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔

عالمگیر وزیر نے یہ بھی کہا کہ طلباء و طالبات کو نہ صرف سٹوڈنٹ یونین کی بحالی کیلیے آواز اٹھانی چاہیے بلکہ ملک کے ظالمانہ نظام کیخلاف کھڑا ہونا چاہیے۔اس نے حکومتی ایوانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ان میں میں بیٹھے ہوئے لوگ ہماری اور ہماری آنےوالی نسلوں کےمستقبل کےساتھ کھیل رہے ہیں۔اور یہ کہ باقاعدہ قانون سازی کرکے انہیں ہمیشہ کےلیے غلام بنایا جارہا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ان ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو گریبانوں سے پکڑ کر ان سے پوچھنا پڑیگا۔ ‬چونکہ یہ ریاست کسی معاہدۂ عمرانی پر نہیں قائم بلکہ جبر پر قائم ہے اس لیے اس میں آزادی کی بات کرنا جرم ہے۔

عالمگیر نے جی ایچ کیو کے جرنیلوں کو غنڈہ گرد کہتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہم پر طالبان مسلط کیے اور ہمارے علاقوں پر قبضہ کیا۔ اور یہ کہ پہلے فوج نے بلوچستان کے معدنیات پر قبضہ کیا اور اب سیکیوریٹی کو جواز بنا کر قبائلی علاقوں میں پوشیدہ معدنیات چوری کیے جارہے ہیں۔ اور یہ کہ وہ انہیں ایسا نہیں کرنے دینگے۔ اور یہ کہ ان غنڈوں نے ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوقیں تھمائیں جبکہ ہم نے قلم، سکول اور ترقی کا مطالبہ کیا۔ لیکن نوجون پشتون انہیں قلم کے ذریعے بتائیں گے کہ وہ محض چوکیدار ہیں۔‬ ‬

جس فوج نے پارلیمان، عدلیہ اور عاملہ اور ملک کے دوسرے اداروں کو اپنے ظالمانہ شکنجے میں جکڑا ہواس کے لیے یہ زبان درازی کسی صورت بھی برداشت نہیں۔

Comments are closed.