آصف زرداری اور روف کلاسرا کی گفتگو

شرافت رانا کے قلم سے

سوشل میڈیا پر موجود پی پی پی کے اکثر ایکٹیوسٹس عمومی مڈل کلاس کی طرح پرنٹ اور ٹیلی میڈیا کےجارحانہ پروپیگنڈا کے زیر اثر اپنی ترجیحات متعین کرتے ہیں۔ اور پی پی پی کی قیادت سے توقع کرتے ہیں کہ وہ پرنٹ اور ٹیلی میڈیا پر بیٹھے ہوئے منشیوں کی ترجیحات اور خواہشات کے مطابق سیاست کرے۔

کچھ ایسا ہی معاملہ نامور صحافی رؤف کلاسرا کا بھی تھا۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے لندن میں قیام کے وقت رؤف کلاسرا کو آصف علی زرداری اور شہید بے نظیر بھٹو سے یوسف رضا گیلانی کے ذریعے ملاقات کے طویل مواقع ملے۔ بلاشبہ رؤف کلاسرا کا اپنا ذاتی بیک گراونڈ خاندانی اور نسلی طور پر اور سرائیکی ہونے کے زیر اثر پرو پی پی پی تھا۔ عام اربن چیٹرنگ مڈل کلاس صحافیوں کے برعکس ایک طویل عرصہ تک رؤف کلاسرہ پی پی پی کی حمایت میں لکھتا رہا تھا۔

سنہ 2008 میں جب پی پی پی کی حکومت قائم ہوئی تو رؤف کلاسرہ بہت اونچی اڑان پر تھا۔ رؤف کلاسرا نے صدر آصف علی زرداری سے انٹرویو کے لئے وقت لیا اور دو سے تین گھنٹے طویل ملاقات کی۔ اس ملاقات میں رؤف کلاسرا نے صدر آصف علی زرداری کی کی کم بولنے کی عادت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر آصف علی زرداری کو اچھی طرح سے بریف کیا کہ پاکستان میں کامیاب سیاست کرنے کے کیا گر ہیں اور کون کون سے کام کیے جائیں تو صدر آصف علی زرداری کی ماضی کی داغدار شہرت کو اعلی ترین اور اچھی شہرت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

مختصر الفاظ میں اگر کہا جائے کہ رؤف کلاسرا نے اتالیق مقرر ہونے کی درخواست پیش کر دی۔ روف کلاسرا کم ازکم عرفان صدیقی قسم کا پورٹ فولیو ایوان صدر میں خواہش کر رہے تھے۔ تین گھنٹے پر پھیلی ہوئی اس طویل ملاقات کا اختتام کچھ زیادہ خوشگوار نہ تھا۔ یہاں پر مسلسل تین گھنٹے صدر آصف علی زرداری کو امیج بلڈنگ کا سبق پڑھانے والے رؤف کلاسرا کو آخر میں صدر کی جانب سے ایک سوال کا سامنا ہوا کہ آپ کام کیا کرتے ہیں؟

رؤف کلاسرا اس بات پر سٹپٹا گیا اور اس نے بڑی حیرانگی کے ساتھ کہا کہ وہ ملک کے معروف صحافی ہیں اور صدر آصف علی زرداری انہیں عرصہ دراز سے جانتے ہیں یہ پوچھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
آصف علی زرداری نے ان سے درخواست کی کہ آپ صحافی ہیں تو آپ کا کام ہے حکومت پر تنقید کرنا۔ حکومت کی ترجیحات متعین کرنے کا حق کسی صحافی کو ہرگز نہیں دیا جاسکتا۔ صدر آصف علی زرداری نے روف کلاسرا کو کہا کہ ان کا امیج برا ہی رہنے دو، انہیں اپنے امیج کی ہرگز کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اور حکومت کی ترجیحات کیا ہیں؟ وہ سیاستدانوں کا استحقاق ہے کہ مقرر کریں۔ انہوں نے روف کلاسرا کو صحافت چھوڑ کر سیاست میں آ نے، اپنی سیاسی جماعت بنانے، جیل جانے اور بالآخر حکومت میں آنے کا مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنی ترجیحات کے مطابق حکومت کر سکیں۔آصف علی زرداری نے انہیں بتایا کہ پی پی پی کی قیادت طے کرے گی کہ اسے کیا کرنا ہے ۔

وہ دن اور آج کا دن رؤف کلاسرا ہاتھ میں غلیل لیے صدر آصف علی زرداری یا پی پی پی قیادت کا کوئی بھی کام ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور اڑتے کوے پر غلیل چلانے کے علاوہ انہیں کوئی کام نہیں ہے۔

یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ،میں نے اپنی 30 سالہ عملی سیاسی زندگی میں بارہا دیکھا کہ کوچہ صحافت میں مصنوعی طور پر براجمان کئے گئے دیہاڑی دار منشی ایک مخصوص بیانیہ کو آگے بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ اور بالآخر اس بیانیہ کی قیمت پر پاکستان مسلم لیگ نواز سودے بازی کرتی ہے۔ مسلم لیگ نواز کی سیاست کی ابتدا اور انتہا یہی ہے کہ صبح اٹھ کر میاں محمد نواز شریف دو تین معروف صحافیوں سے روزانہ ہدایات لیتے ہیں کہ انہیں آج کیا کیا اپنے بیانات میں کہنا ہے۔ اسی طرح محترمہ مریم نواز شریف بھی کی تقاریر بھی لکھی جاتی ہیں اور صحافی اپنی ترجیحات کے مطابق بیانیہ متعین کرتے ہیں۔

پی پی پی کی سیاست کی بنیاد یہ ہے کہ صحافت اور سیاست میں پیسہ خرچ کرنے والے لوگوں کو داخل ہونے سے روکنا ہے۔ پی پی پی کی قیادت سیاست کے ذریعے وفاداریاں خریدنے نے اور گھوڑوں کی خرید و فروخت کے عمل کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کرتی ہے۔اسی طرح پی پی پی کی قیادت صحافت میں میں اپنی لابی بنانے یا میڈیا مارکیٹنگ کے ٹیکٹیکس اختیار کرنے سے انکار کرتی ہے۔اس لیے جب بھی ملک کی سطح پر پی پی پی کی قیادت کو کوئی اہم فیصلہ لینا ہوتا ہے تو پی پی پی کےسیکنڈ اور تھرڈ لائن کارکن اور لیڈر شریف خاندان کے بھاڑے پر لکھنے والے منشیوں کے زیراثر اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔

اول تو پاکستانی صحافت میں تاریخ اور سیاست جاننے والے لوگ موجود ہی نہیں ہیں۔جو کچھ بھی کاٹھ کباڑ مٹیریل موجود ہے وہ پچاس سال سے ایک لائن یعنی پی پی پی کی قیادت یا آصف علی زرداری کی کردار کشی کو مذہبی فریضہ سمجھ کر سر انجام دیتے ہیں۔ سب سے بڑی بدقسمتی کی یہ بات ہوتی ہے کہ پی پی پی کی صوبائی قیادت یا کارکن اس پروپیگنڈا کے زیر اثر اپنی قیادت کے خلاف بیان بازی کریں یا اس سے متنفر ہو جائیں۔

اس سے قبل کئی مواقع پر نشاندہی کر چکا ہوں مختصر بتاتا ہوں ہو کہ میڈیا نے ثابت کیا کہ پی پی پی قیادت نے پہلے میثاق جمہوریت کی خلاف ورزی کی تھی۔ وہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ ا س ناچیز نے کیلنڈر سے ثابت کیا کہ میثاق جمہوریت کو نواز شریف نے کیانی اور پاشا کے ہاتھ بیچ کر اے پی ڈی ایم بنایا اور تنہا اسلام آباد آگئے۔ کبھی پی پی پی کی میڈیا سیل کی جانب سے اس امر پر وضاحت نہیں دی گئی۔

گزشتہ سینٹ کے الیکشن کے موقع پر پر آصف علی زرداری کے ذاتی دشمن، قابل نفرین رانا مقبول کو سینیٹر بنوانے والے میاں محمد نواز شریف نے اپنا امیدوار راجہ ظفر الحق کو بنایا تھا اور دونوں اپوزیشن پارٹیوں یعنی پی پی پی اور پی ٹی آئی کے درمیان اتحاد کے بعد سیاسی داؤ پیچ اور حربے کے طور پر رضا ربانی کا نام آگے بڑھایا تھا۔ اس بات پر بھی پی پی پی کی قیادت یا میڈیا ٹیم کبھی جارحانہ طور پر آگے نہیں بڑھی کہ اس وقت میاں نوازشریف کیا کیا ظلم زیادتی اور غلطی کر رہا تھا۔ معروف بیانیہ ہے کہ آصف علی زرداری نے فوج سے ملکر بلوچستان حکومت گرائی اور فوج نے اسے تحفۃ اور ہدیہ سینیٹ میں نشستیں عطا کردیں۔

Comments are closed.