فخرِپاکستان ائرمارشل ظفراحمد چوہدری



طارق احمدمرزا

سال  2019  جاتے جاتے دسمبرمیں پاکستان ائرفورس کے سابق ائرمارشل     محترم ظفراحمدچوہدری صاحب  کو بھی ترانوے برس کی عمرمیں  اپنے  ساتھ لے گیا ۔آپ پاکستان کےپہلے چیف آف  ائر سٹاف تھے اور آپ کا تعلق احمدیہ جماعت سے تھا۔

پاکستان کے موجودہ چیف آف ائر سٹاف  مکرم مجاہد انور خان نے  خراج تحسین  پیش کرتے ہوئے   آپ کی وفات پر گہرے دکھ  اورافسوس کا اظہارکیا۔پاک فضائیہ  کے چاک وچوبند دستے نے آپ کی قبر پر گارڈآف آنر بھی پیش کیا۔

محترم چوہدری صاحب    پاکستان ہیومن رائٹس  کمشن آف پاکستان کے بانیوں میں سے تھے۔آپ کی اہلیہ محترمہ قمرظفر چوہدری صاحبہ بھی  اپنے شوہر کے ہمراہ   ملک میں انسانی حقوق  کی  حفاظت  کے لئے مرتے دم تک کوشاں رہیں۔

اٹھارہ دسمبر2019 کو  ہیومن رائٹس کمشن کی طرف  سے  جاری کردہ ایک پریس ریلیز  میں  کہاگیا کہ: پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) اپنے بانیوں میں سے ایک ، ایئر مارشل (ریٹائرڈ) ظفر چودھری کی وفات پرگہرےافسوس کا اظہار کرتا ہے۔ ایئر مارشل ظفر چودھری انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن تھے۔ انہوں نے 1980 کی دہائی میں، جب پاکستان میں ایسا کوئی ادارہ موجود نہیں تھا، انسانی حقوق کے ایک آزاد ادارے ایچ آر سی پی کی داغ بیل ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا۔۔ بعد ازاں، انہوں نے ادارے کی ایگزیکٹیو کونسل کے رکن کے طور پربھی خدمات سرانجام دیں اور ناساز صحت کے باوجود ایچ آر سی پی کے دفتری فرائض انجام دیتے رہے۔ ایچ آر سی پی لاہور میں سیکریٹریٹ کے قیام میں بھرپور مدد کرنے پر ان کا ہمیشہ ممنون رہے گا۔

ایچ آر سی پی کے پاکستان بھر میں موجود کارکن ان کی کمی کو شدت سے محسوس کریں گے، خاص طور پر ان کے دوست اور ساتھی، چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن، اعزازی ترجمان آئی اے رحمان، سابق چئیرپرسن زہرہ یوسف، وائس چیئرپرسن پنجاب سلیمہ ہاشمی اور کونسل رکن حنا جیلانی، جن کے وہ کافی قریب رہے۔

ایچ آر سی پی ایئر مارشل (ریٹائرڈ) ظفر چودھری کی یاد میں 30 دسمبر 2019  بروز پیرلاہورکے دفتر میں ایک ریفرنس کا  انعقاد کرے گا۔

معروف صحافی اور دانشورحسن نثار نے 18دسمبر 2019  کو اپنی ویب سائٹ پر جلی الفاظ میں اناللہ واناالیہ راجعون کی شہہ سرخی کے ساتھ مندرجہ  الفاظ میں    ظفراحمد چوہدری صاحب کی وفات  کی خبرلگائی: ۔

اناللہ واناالیہ راجعون:پاکستان کا فخرپاک فضائیہ  کے سابق سربراہ انتقال کر گئے۔

آپ کی وفات کی خبر دنیا بھر میں متعدد دیگرکئی  اخبار ات  نے بھی شائع کی ۔

ظفرچوہدری   صاحب  19 اگست 1926 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی  سے  گریجوایشن کیا۔پیشہ ورانہ زندگی   کا آغاز 9 اپریل 1945 کو رائل انڈین ائرفورس  میں بحیثیت پائلٹ آفیسربھرتی ہوکر کیا۔ آپ نے برطانیہ کے رائل سٹاف کالج  ہمپشائر اور امپیریل ڈیفنس کالج  سے بھی پیشہ ورانہ مہارت کے کورس کامیابی سے پاس کئے۔آپ نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام  کے  زمانہ طالبعلمی   سے ہی دوست  تھے۔پنجاب یونیورسٹی اور پھر برطانیہ میں دوران تعلیم و تربیت   پاکستان کے ان نامور سپوتوں کا آپس میں دامن چولی کا ساتھ رہا جو بعد میں خاندانی مراسم میں بدل گیا۔آپ نے  ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ اپنی دوستی    کی یادداشتیں ایک مضمون میں بھی قلمبندکی تھیں۔

سنہ1965 ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران  جبکہ آپ ائرکموڈور تھے،ائرہیڈکوارٹرز میں  ڈائریکٹر آپریشنز کے طورپر تاریخی خدمات سرانجام دیں۔اس جنگ میں دشمن کے خلاف  پاکستانی شاہینوں کے جملہ کارناموں کا سہرا آپ کے سر جاتا ہے۔

سنہ 1971 ء  میں آپ پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز کے مینیجنگ ڈائریکٹرمقرر ہوئے۔3 اپریل  1972 کو آپ کا تقرربحیثیت چیف آف ائرسٹاف  ہوا۔آپ   کو فنون  لطیفہ اور ادب سے گہرا شغف تھا اور عمدہ ذوق رکھتے تھے۔آپ   مصنف بھی تھے اور چارکتابوں کے خالق۔آپ کواردو زبان پہ  زبردست عبورحاصل تھا ،دل ودماغ  بلکہ روح میں اترتی ہوئی  اندازتحریر کے مالک۔

ڈان اخبار لکھتا ہے  کہ دہلی  شہر سے متعلق  اپنی یادوں پہ مشتمل جو مضمون آپ نے لکھا اس کی تاثیر اور لذت  کا اعتراف کرتے ہوئے   مشہور پیشکار (ٹی وی اینکر)،اداکاراور تبصرہ نگارضیاء محی الدین  نے اپنے توشہ خانہ ء   انتخابات میں شامل  کرلیا۔

آپ کی  قومی اور ملی خدمات کی بنا پر حکومت کی طرف سے ستارہ قائداعظم  کےاعزازسے نوازاگیا تھا۔

قائداعظم  محمدعلی جناح سے ملاقاتیں

محترم  ظفرچوہدری  صاحب کی قائداعظم سے پہلی ملاقات 1941 میں ہوئی تھی جب  کہ آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں زیرتعلیم تھے۔اس ملاقات کا اہتمام قائداعظم کے سابق سیکرٹری مجاہد حسین نے کروایا۔ملاقات میں  آپ دونوں کو قائداعظم اور ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح  کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا جنہوں نے مشروبات  سے ان کی تواضع بھی کی۔قائداعظم نے   نوجوان  ظفراحمد کو نصیحت کی  کہ اپنی ساری توجہ پڑھائی پر رکھنی ہے اور دوم یہ کہ جب کوئی فیصلہ کیا کرو تو پھر اس پر جم  جایا کرو۔قائد کی اس نصیحت   کوچوہدری صاحب  نے   زندگی کا لائحہ عمل اور اصول بنالیا تھا۔اس کے نتیجہ میں آپ کو اپنی زندگی میں  جہاں ہمیشہ فائدہ  پہنچا وہاں ذاتی نقصان بھی ہوا لیکن انہوں نے اصول پسندی  پر کبھی   آنچ نہیں آنے دی۔اس کی  کچھ تفصیل آگے چل کر بیان  ہوگی۔

قائد اعظم  سے  آپ کی دوسری ملاقات  بحیثیت ان کے محافظ پائلٹ  کے ہوئی۔قائد نے انڈین نیشنل ائرویز  میں  دلی سے پشاور آنا تھا جہاں چوہدری صاحب تعینات تھے۔پروگرام کے مطابق  ائرفورس کے طیاروں  نے  قائد کے جہاز کے گردحلقہ  بنا کران کا استقبال کرنا تھا۔دَت  نامی ایک متعصب ہندوپائلٹ نے اپنی نفرت کا اظہارکرتے ہوئے کہ وہ   چاہتا ہے کہ جناح کے طیارے  کو نشانہ بنا کر فضا میں ہی اڑا دے۔چوہدری صاحب   نے غیض وغضب  میں آکر فوراً اسے جواب دیا کہ   میں  تہارے طیارے کے ساتھ رہوں گا اور اس سے پہلے کہ تم  قائد کے طیارے کو چھو سکو ،تمہیں تباہ کردوں گا۔چنانچہ جب  ایرفورس کے طیارے اڑے تو انہوں نے  اپنے طیارے کو دَت کے  طیارے کے ساتھ ساتھ   چمٹائے رکھا حتیٰ کہ قائد کا طیارہ   بحفاظت  ایرپورٹ پر اترگیا۔دراصل  دَت نے محض خالی خولی دھمکی  دی تھی لیکن   ظفر چوہدری نے  اپنے محبوب قائد کی حفاظت کی خاطرہرحدپارکرنے کی  ٹھان لی تھی۔

راقم کے نزدیک یہ ایک واقعہ  ہی آپ کوستارہ قائداعظم ”  کا حقداربناگیا تھا۔

قائداعظم کے ساتھ  آپ کی تیسری اور آخری ملاقات اپریل 1948 میں ہوئی جب آپ رسالپور میں تعینات تھے۔قائداعظم نے پریڈ کا معائینہ کیا اور سٹاف کے ساتھ ایک  یادگارتاریخی تصویر کھچوائی۔قائداعظم کی طبیعت  ان دنوں کافی ناساز ہوچکی تھی لیکن دوگھنٹے  کی  پریڈ تقریب کے دوران  وہ سلامی کے چبوترے پر لگاتارسیدھے  کھڑے  رہے۔پی اے ایف  میس میں قائداعظم   شاہینوں کے ساتھ ناشتہ کرنے تشریف لائے تو چوہدری صاحب کو پہلی نظرمیں دیکھتے ہی  پہچان گئے  کہ  یہ آفیسر وہی نوجوان طالبعلم  ظفراحمدہے جو ان سے ملاقات کرنے آیاتھا۔  ان ملاقاتوں کا احوال محترم چوہدری صاحب نے اپنی خودنوشت  میں    محفوظ کیا ہے۔

جنرل محمد یحییٰ خان : مذہبی تعصب  سے بالا شخصیت

سنہ1971 میں چوہدری صاحب    جب ائروائس  مارشل   اور ائرہیڈ کوارٹر پشاور کے پرنسپل سٹاف  آفیسر تھے تو پی آئی اے کو ایک  دیانت دار  اور بہترین  منتظم اعلیٰ کی ضرورت  پڑ گئی۔پاک فضائیہ کے اس وقت کے سربراہ  رحیم  خان نے   آپ کی خدمات پی آئی کے حوالے  کرنے کی تجویز آپ کے سامنے رکھی تو آپ نے انہیں کہا کہ   میں اس چیلنج کو قبول کرلوں گا لیکن ا یسا نہ ہو کہ میرامذہبی پس منظر اس تقرری   کے حوالے سے فتنہ پروروں کے لئے   شرارتوں کا جواز فراہم کردے۔

لہٰذا  اس  معاملہ کی  پیشگی اطلاع صدر یحییٰ خان کو بھی کردی جائے،ان کی منظوری کے بعد ہی میں یہ عہدہ سنبھالوں گا۔رحیم خان نے صدر یحییٰ سے بات کی تو انہوں نے  برملا کہہ دیا کہ اگر وہ ائرمارشل بننے کاا ہل ہے تو پی آئی اے کا سربراہ بھی  بن سکتا ہے۔اس کا عقیدہ اس تقرری میں حائل نہیں ہونا چاہئے۔

ذوالفقارعلی بھٹو کے ساتھ    تعلقات  کادلچسپ و عجیب   اتارچڑھاؤ

سنہ  1971 کی جنگ کے بعدذوالفقار علی بھٹوکو یورپ سے واپس لاناتھا تاکہ وہ صدر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا چارج  سنبھال لیں۔ان دنوں وہ روم میں تھے۔چوہدری صاحب نے  ائرمارشل رحیم خان کے حکم پرپی آئی اے کا ایک بوئینگ  طیارہ  بھجوایا۔پاکستان پہنچ کربھٹونے اپنے عہدوں کا چارج سنبھالا۔اس سے قبل ظفرچوہدری  کی ملاقات بھٹو سے کبھی نہیں ہوئی تھی۔

ایک دن  بھٹو صاحب  ان سے ملنے آئے اورپی آئی اے میں  ایک ایسی خاتون کی  بطورائرہوسٹس تقرری کی  ذاتی سفارش کی جو وزن کے لحاظ  سےکچھ زیادہ ہی بھاری بھرکم تھیں اور ائر ہوسٹسوں کے لئے مقررہ طبی  معیارپر پورانہیں اترتی تھیں۔چوہدری صاحب  جو اصول وضوابط کی سختی کے ساتھ پابندی کرتے اور کرواتے تھے،بھٹو صاحب  کے سامنےان  کی سفارش  کو تسلیم  کرنے کےلئے یہ شرط لگائی کہ  جب یہ خاتون  اپنا وزن کم کرلیں گی تو دوبارہ انٹرویوکے لئے آسکتی ہیں ۔اس پربھٹو مسکراکر چپ ہوگئے۔

اس کے بعد بھٹو نے پی آئی  اےکے ایک ایسے ملازم کی بحالی کی سفارش کی ،جس کے بارہ میں تحقیقات چل رہی تھیں بلکہ آخری  رخصت پر بھی بھجوایا جا چکا تھا۔ اس پر بھی چوہدری صاحب نے  معذرت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ائرفورس سے تبدیل کرکے  پی آئی کاسربراہ اسی غرض کے لئے  بنایا گیا ہے تاکہ میں  اس قومی ادارہ کو سفارش ،بدعنوانی اور نااہلی وغیرہ  سے پاک کرکے  میرٹ  اور شفافیت کو بحال کروں۔آپ نے بھٹوکو بتایا کہ اگر میں آپ کی سفارش پر اس شخص کے خلاف چلنے والی محکمانہ کارروائی کو یکسر کالعدم قراردے کر  اسے بحال کردوں تو پی آئی اے کے عملے اور انتظامیہ  کا مجھ  پراعتباریکسرختم ہوجائے گا۔مجھے کوئی سنجیدگی سے لے گا ہی نہیں۔

اس ملاقات    میں چوہدری صاحب  کی شخصیت اور ان کی اصول پرستی  کا بھٹوپرایسا  اثر پڑا کہ جب انہوں نے رحیم خان کو ان کے عہدے سے برطرف کیا تو پاک فضائیہ کے نئے سربراہ کے لئے ان کی نظرِ انتخاب  ظفراحمدچوہدری   پر ہی پڑی  ۔

آپ نے لکھا ہے کہ بھٹو نے آپ کو چیف آف ایئر سٹاف  بنایا تو عہد کیا کہ  نہ میں  تمہارے کاموں میں دخل اندازی کروں گا اور نہ تم  میرے کاموں میں  مداخلت کروگے!”۔

سنہ 1972 میں  بھی ایک  ایساواقعہ پیش آیا جب  وزیرمملکت برائے دفاع نے  آپ کو فضائیہ کے ایک افسر کے تبادلہ کے لئے  سیکرٹری دفاع  کے توسط سے آپ کو حکمجاری کیا لیکن آپ نے  اس پر یہ کہہ کرعملدرآمدکرنے سے انکارکردیا کہ فضائیہ  جیسے حساس  اورپیشہ وارانہ   عسکری  ادارہ  میں  کسی افسرکو کسی مقام پر رکھنا یاتبدیل کرنااس ادارہ   کا ہی کام ہوسکتا ہے،نہ کہ کسی وزیرکا ۔انکارکرنے پر وزیرصاحب بڑے جزبزہوئے اور اسحکم عدولی کی وضاحت  براہ راست صدر بھٹو کو پیش کرنے کی ہدایت کی۔ چوہدری صاحب نے بھٹو  سے  ملاقات کی اورکہا کہ اگر ہمارے کام میں اس طرح سے مداخلت  کروانی ہے تو مجھے میرے عہدے سے سبکدوش کردیا جائے۔اس موقع پر بھی بھٹو نے آپ کا ساتھ دیا اور معاملہ  رفع دفع کروادیا۔

یہ شراب نہیں پیتے

چوہدری  صاحب نے اپنی  خودنوشت میں  ایک  دلچسپ واقعہ بھی بیان کیا ہے  جب وزیراعظم ہاؤس  کے ایک ڈنر میں ایک ویٹر مشروبات کی ٹرے  لے کر چوہدری صاحب کے پاس آیا تو انہوں نے  ایک بے رنگ گلاس سیون اپ سمجھ کراٹھا لیا۔مسٹربھٹو نے یہ دیکھتے ہی  بلندآواز سے  کہابھئی ائرمارشل صاحب شراب نہیں پیتے،ان کے لئے کوئی سادہ مشروب  لے کرآؤ۔یہ سب کچھ تو   ان وزیر صاحب کے لئے ہے !”۔انہوں نے  قریب کھڑے  ایک وزیر کی طرف اشارہ کیا جوبھری محفل میں مارے خجالت کے نہ  توکچھ کہہ سکے اور نہ ہی وہاں سے کھسک سکتے تھے۔

اسی طرح فضائیہ کا سربراہ بننے کے بعد چوہدری صاحب نے   سرکاری گھرمیں بھٹوصاحب  کو مدعوکیا(جن کے ساتھ وزراء  اور گورنربھی مدعو تھے) تومہمانوں کی خدمت میں  سادہ مشروبات پیش  کرنے پر بھٹونے کہایہ ہو کیا گیا ہے،کچھ عرصہ پہلے تک تو یہاںوہسکی  پانی کی طرح  بہاکرتی تھی !”۔اس کے بعد بھٹو نے کسی طرح  اپنے ذاتی خادم کے ذریعہ  چوہدری صاحب  سے آنکھ بچاکرشراب کی ایک بوتل   کچن میں منگوا کرنوش کر ہی لی۔اس کا علم چوہدری صاحب کو بعد میں ہوا۔

عہدے  سے استعفیٰ

کردار اور اصول  کے پکے چوہدری ظفراحمدکی جو صفات  مسٹربھٹو کو پسند آئی تھیں،بالآخرچوہدری صاحب  موصوف کے استعفے کا بھی باعث بن گئیں۔اس واقعہ کو کچھ متعصب   لوگوں نے  محض احمدیت دشمنی کی وجہ سے  کچھ اورہی رنگ دیا ہوا ہے۔چوہدری صاحب  کو غدار،سازشی اور نجانے کیا کیا نام دے کر اپنے تئیں   ثواب   کمارہے  ہیں۔آپ کے  بعض ہم پیشہ   افراد جن کی چالاکیاں اور شرارتیں چوہدری صاحب کے ہوتے ہوئے نہ  چل سکیں وہ بھی اپنی کتابوں اور کالموں وغیرہ   پاکستان کے  اس قابلِ فخرسپوت پر کیچڑ اچھالنے سے  باز نہ آئے۔حتیٰ کہ پاکستان کی   قومی اسمبلی   تک میں جاہلوں کے منتخب کردہ جاہل  ممبران   اسمبلی   فخرِ پاکستان چوہدری ظفراحمد کی کردار کشی پر مبنی تقریریں کرکے سپیکر سمیت  دیگرہم نواؤں  سے   ڈیسک بجوا بجوا کردادوتوصیف  وصول کرتے رہے ہیں۔

الزام اور حقائق

آپ کے بارہ میں یہ کہا جاتا ہے کہ  حکومت وقت کے خلاف ایک خوفناک  سازش”  کا مرکزی کردار ہونے کی وجہ سے آپ کو عہدے سے سبکدوش کردیاگیا تھا جس کے بعد آپ ملک چھوڑکر کینیڈا بھاگ گئے۔یہ سراسرایک احمقانہ  اور بھونڈاالزام ہے۔یہی کہناکافی  ہے کہ اگر پاک فضائیہ  کا  یہ سربراہ حکومت  کا تختہ الٹنے کی سازش میں ملوث پایا گیا تھاتو اس کے خلاف کورٹ مارشل کیوں نہ ہوا۔استعفیٰ  دینے   کے بعد سالہاسال پاکستان ہیومن رائٹس کمشن  کا ممبر کیسے بنا رہا۔آپ سے ستارہ قائداعظم واپس کیوں نہ لیا گیااوروفات  پاجانے  پرموجودہ چیف آف ائرسٹاف کی طرف سے   خراج تحسین  پانے کا حقدارکیسے قراردیا گیا وغیرہ وغیرہ۔

دراصل یہ وہی طبقہ ہے جو جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والی اہم قومی  اور اہم شخصیات مثلاًسرظفراللہ خان،ڈاکٹرعبدالسلام،ایم ایم احمد،جنرل عبدالعلی اور جنرل اخترحسین ملک وغیرہ  کے نام ،مقام اور ان کی قومی وملکی خدمات  کا اثرذائل کرنے  کی کوششوں میں  منظم طورپر مصروف ومشغول رہتا ہے۔چوہدری ظفراحمد صاحب   بھی  انہی کا نشانہ بنے ۔

جو لوگ اس مبینہ الزام اور اس کے پس منظر سے واقف نہیں ،ان کے لئے بیان کیاجاتا ہے کہ  سنہ1973 میں بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش  کے الزام میں عسکری اداروں سے تعلق رکھنے والے  کچھ  آفیسرگرفتارکرلئے گئے تھے۔ ان نامزد ملزمان میں آرمی کے  21 اور ائر فورس کے 14 افسران  شامل تھے۔ابتدائی تحقیقات کے بعد  فوجی افسران میں سے ایک کا نام تو ملزمان کی لسٹ میں سےخارج کردیاگیا جبکہ  باقیوں میں کچھ کو عمرقید تو کچھ کو ترقی سے محرومی کی سزاملی۔فضائیہ  افسران میں سے بھی ایک   کا نام ملزمان کی فہرست سے  خارج کردیا گیا جبکہ مقدمہ چلنے پر عدم ثبوت کی بناپر  9 بے قصور قرارپائے۔

ائرمارشل ظفر چوہدری، جواصول،قواعد اورنظم وضبط   کے بہت سخت تھے ، مبینہ طور پر فضائیہ  کے تمام 14 افسران کو جبری ریٹائرمنٹ پر بھجوانا چاہتے تھے اور انہوں نے اس کا حکم نامہ بھی جاری کردیا ۔غالباً آپ نہیں  چاہتے تھے کہ پاک فضائیہ  میں ایسے افسران  کام کریں  جو متنازعہ حیثیت  یا کردار کے حامل رہے ہوں۔لیکن حکومت نے ان 14 میں سے سات افسران کوچوہدری صاحب  کے مذکورہ فیصلہ سے مستثنیٰ قرار دے کر  ملازمت پہ بحال کردیا۔اس پر اپریل 1974  میں  چوہدری  نے احتجاجاً خود ہی اپنے عہدے سے  استعفیٰ دے دیا ،نہ  یہ کہ آپ کو سبکدوش کیا گیا ۔

سول اور ملٹری  امور کے معروف  کمنٹیٹر اور تجزیہ نگار برائن  کلاگلی  نے  اپنی کتاب
War,coups and Terror :Pakistan’s Army in Years of Turmoil

کے صفحہ  12 پر مندرجہ بالا  تفصیل بیان کے بعد  بجاطورپر یہ نتیجہ اخذکیاہے کہ    اس سازش کیس کی ادارہ  جاتی  محکمانہ تحقیقات  اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلح افواج   کے اس وقت کے سربراہان (بشمول فضائیہ) بھٹو حکومت کے خلاف  کسی بھی سازش کا حصہ نہیں تھے۔انہوں نے تو خود اس سازش کو بے نقاب کرکے   منتخب سول حکومت  کو اس کی اطلاع  کی تھی۔اس لئے ان سربراہان میں سے کسی ایک پر سازش میں شریک ہونے  کا الزام لگانا سراسر زیادتی  ہوگا۔

معروف پولیٹیکل سائنٹسٹ اور تجزیہ نگار حسن عسکری نے بھی اپنی کتاب “ملٹری،سٹیٹ اینڈ سوسائٹی اِن پاکستان “مطبوعہ 2000 ء  (صفحہ  144)  میں یہی بات لکھی ہے  کہ :

…..in April 1974,another Chief of Air Staff,Air Marshal Zafar Chaudhary, resigned when Bhutto reversed his decision  to retire pre-maturely seven Air Force officers.”

یعنی  چیف آف ائر سٹاف ائرمارشل ظفرچوہدری نے  بھٹو کی طرف سے ان کے ایک فیصلہ   کے برعکس  احکام جاری کرنے پر اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔

غالباًچوہدری صاحب  بھٹو کو ان کا یہ  عہد یاددلانا چاہتے  تھے کہ  : “نہ میں  تمہارے کاموں میں دخل اندازی کروں گا اور نہ تم  میرے کاموں میں  مداخلت کروگے!”۔

لیکن  عین ممکن ہے کہ  ظفرچوہدری  کواندرون خانہ  پکنے والی کسی اورکھچڑی  کابھی علم تھا ورنہ کورٹ مارشل سے بری ہونے والے ان افسران کو جبری رخصت پر بھجوانے  کا فیصلہ نہ کرتے۔

Comments are closed.