منظور پشتین کی گرفتاری: کنعانیوں نے یوسف کا آخر کیابگاڑا؟

محمدحسین ہنرمل

منظور پشتین کو تین دن پہلے رات کو پشاور سے بظاہر گرفتار کرکے جیل پہنچا دیا گیا لیکن حقیقت میں وہ گرفتار نہیں بلکہ ان کو مزید بام ِعروج پر پہنچا یاگیا۔ اس کا بیانیہ پہلے کی نسبت اب مزید موضوع بحث بن کر ابھرنے لگا۔سچی بات یہ ہے کہ منظور دنیا کے ان چند رہنمائوں میں سے ایک ثابت ہوئے جن کی گرفتاری کے خلاف دنیا کے سینکڑوں شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ نیویارک ٹائمز سے لے کر الجزیرہ تک اور بی بی سی سے لیکر سی این این جیسے ٹاپ میڈیا نے ان کے حوالے سے خبریں شائع کیں۔ ہیومین رائٹس کے عالمی تنظیموں نے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا اور ان کی گرفتاری کو ایک جابرانہ اقدام قرار دیا۔منظور پشتون کی راتوں رات گرفتاری اور پھر غضب کی شہرت نے مجھے معروف شاعراستاد سید خیر محمد عارف کا شعر یاد دلایا،

د شہرت لمر ئے د اووم اسمان و بام تہ وخوت

د کنعان خلگو د یوسف پہ زندان سہ جوڑہ کڑہ؟

کنعانیوں نے یوسف کو جیل میں ڈال کر بام عروج پر پہنچانے کے سوا اُن کا اور کیا بگاڑا ؟

میں نہیں سمجھتا کہ ریاست آخر منظور پشتین کو کیا ثابت کرنا چاہتی ہے؟ افغان حکومت کا ایجنٹ ؟ بھارتی ایجنسیوں کا جاسوس یا امریکہ سے شہہ پانے والا تخریب کار ؟

کیا اس کے بارے میں ایسی بدگمانیوں اور دھڑادھڑ بے بنیاد الزامات لگانے سے یہ مسئلہ حل ہوسکتاہے یا اس کے حل میں مزید اشکالات پیش آسکتے ہیں؟ میں نہیں سمجھتا کہ حکمت عملی ، دانائی اور شفقت سے تہی دست ریاست اور سرکار کیونکر اس پچیس سالہ نوجوان کو خوامخواہ اپنا مخالف اور باغی ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے ؟ میں نہیں سمجھتاکہ ریاست کی طرف سے غداری کا لقب پانے والا منظور پشتین کا شمار آخر کس نوع کے غداروں میں ہوتا ہے جس کی ہر بات آئین کی پاسداری کی تبلیغ سے شروع ہوتی ہے اور آئین ہی کی اطاعت کے درس پر ختم ہوتی ہے ۔میں یہ بات سمجھنے سے ہنوز قاصر ہوں کہ ریاست کی طرف سے یہ ڈکلیئرڈ باغی آخر کس کیٹیگری کا باغی ہے جن کے ہاتھ میں نہ تو ہم نے کبھی بندوق دیکھی ہے اور نہ ہی ان کی زبان سے پاکستان نہ کھپے کا نعرہ کسی نے سنا ہے ۔

اس درویش منش وزیرستانی کی زبان سے ہمارے گہنگار کانوں نے فقط لہو لہو وزیرستان کی رونگٹے کھڑے کردینے والی باتیں ،نقیب محسود جیسے تاریک راہوں میں شہیدہونے والوں کی المناک داستانیں ،لاپتہ پشتونوں کے ماوں ، بہنوں اور پھول جیسے بچوں کی آہیں ، سسکیاں اور راو انوار جیسے خونخوار قاتلوں اور ان کے سرپرستوں کی کہانیاں سنی ہیں۔

اس کی بے شمار امن پسند تقاریر سننے سے قطع نظر ، میری اس نوجوان سے براہ راست ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں ،جس طرح ان کو اپنی تقریروں اور انٹرویوز میں ایک محب وطن اور امن پر یقین رکھنے والا کھر اپشتون پایاہے اسی طرح ان کو براہ راست نشستوں میں بھی اسی طرح پایا ہے ۔حیف ،آج وہ جہاں بھی وہ اپنی فریاد سنانے جاتا ہے تو وہاں پر کسی نہ کسی صورت میں ان کی اور ان کے ساتھیوں کی سرزنش کی جاتی ہے۔

چند سال پہلے لاہور کے موچی دروازے پر انہیں بادل نخواستہ اپنی فریاد سنانے کی اجازت تو دی گئی لیکن ساتھ ساتھ اس میدان کو گندے پانی سے بھر دیا گیا جہاں چند گھنٹے بعد اس فریادی کا جلسہ ہونے والا تھا۔اسی طرح 12 مئی کو کراچی میں ان کے اجتماع کوسبوتاژ تو نہ کرسکا تاہم ایک دن پہلے اسلام آباد ہوائی اڈے پر اس باغی اور ان کے ساتھیوں کو عین اس وقت روکا گیاجب وہ مذکورہ جلسے میں شرکت کیلئے اڑان بھرنے والے تھے ۔ بامرِ مجبوری انہوں نے زمینی راستہ اختیار کرکے کراچی کی طرف چل پڑے۔راستے میں بھی مختلف مقامات پر ان کو اپنے ساتھیوں سمیت اس لیے روکا گیا تاکہ وہ کراچی جلسے میں پہنچ نہ سکے۔ لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ منظور وہاں پر بروقت پہنچ بھی گئے اور سہراب گوٹھ میں انسانی جم غفیر سے مخاطب ہوکر ایک مرتبہ پھر ملک کی آئین کی پاسداری اور انسانی حقوق کی بات کر بھی ڈالی۔

پھر ایک دن سندھ میں ان کے داخل ہونے پر پابندی کا پروانہ جاری کر دیا گیا اور پھر کوئٹہ میں داخل ہونے پر ان کے داخلے پر اسلئے قدغن لگائی گئی کہ کہیں یہ غدار پھر انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف اپنی آواز بلند نہ کرے اور ماورائے عدالت بجھ جانے والی چراغوں کی یاد میں آنسو نہ بہائیں۔ منظور پشتین کو گزشتہ رات دو بجے پشاور سے گرفتار کرکے شاید ریاست اس غلط فہمی میں مبتلا تھی کہ اس کا یہی حربہ کارگر ثابت ہوسکے گا لیکن اس کا نتیجہ اس کا برعکس نکلا اور ہونا بھی چاہیے تھا ۔گرفتاری سے منظور پشتین کی آواز اب چہار دانگ عالم میں پھیل کر منظور ہوگئی ہے، ان کا بیانیہ پھر سے موضوع بحث بن گیا ۔ پہلے ان کی شہرت آسمان اول پر پہنچ چکی تھی لیکن اب کی بار یہ شہرت ساتویں آسمان کو چھوگئی ہے ۔

عمران خان کی کٹھ پتلی حکومت سے نہیں بلکہ اس ریاست کے اصل مالکان سے گزارش کی جاتی ہے کہ منظور پشتون کو ایک محب وطن پاکستانی کی طرح منظور نظر رہنے دو ۔ان کے تمام تر مطالبات آئینی، اسلامی اور اخلاقی ہیں اور انہیں ٹھکرانے کے بجائے سنجیدہ لیا جائے جو نہ صرف پشتونوں کا نہیں بلکہ یہاں پر آباد تمام مقہور اقوام کے دلوں کی آواز ہے۔

Comments are closed.