۔۔۔ اور جنرل باجوہ کو ایکسٹنشن مل گئی

پاکستان کے ایوان زیریں میں آج منگل سات جنوری کو منظور کردہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل میں فوج، ایئرفورس اور نیوی کے سربراہوں کی زیادہ سے زیادہ عمر 64 برس مقرر کر دی گئی ہے۔

پاکستان کی قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری دے دی ہے۔ اس بل کی منظوری کے بعد اب  صدر پاکستان، وزیراعظم پاکستان کے مشورے پر تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کی مدت ملازمت میں تین برس کی توسیع کرنے کے مجاز ہو گئے ہیں۔ توسیع ایک مرتبہ ہی کی جا سکے گی۔

منظور شدہ ایکٹ کے تحت فوج کے  سربراہان کی مدت ملازمت مکمل ہونے پر اس میں توسیع  یا دوبارہ تقرری وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار ہو گا جس کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ ایک ایسے ملک کے لیے یہ ایک انتہائی اہم اقدام ہے جہاں پر کئی دہائیوں تک فوج حکومت کرتی رہی ہے۔ فوج کو ملک کے سب سے طاقتور ادارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کے فیصلے کو چیلنج کر دیا تھا۔ پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں نصف سے زائد وقت فوج بر سر اقتدار رہی۔ فوجی سربراہ کی تقرری تین برس کے لیے ہوتی ہے لیکن جنرل باجوہ سے قبل بھی کئی فوجی سربراہان یہ توسیع لے چکے ہیں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2016ء میں جنرل راحیل شریف کے بعد پاکستانی فوج کی کمان سنبھالی۔ تاہم جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں پاکستانی فوج پر عوام کے آزادی اظہار پر قدغن اور موجودہ وزیراعظم عمران خان کو 2018 کے انتخابات میں فتح دلوانے اور اقتدار میں لانے جیسے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے جنرل باجوہ کو 2018 کے انتخابات کو دھاندلی قرار دیاتھا ۔ بلاول بھٹو نے وزیراعظم عمران خان کے لیے لفظ سلیکٹڈ استعمال کیا تھا۔ 

 بروز منگل سات جنوری قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں اس بل کو باقاعدہ منظوری کے لیے پیش کیا گیا جسے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ پی ٹی آئی ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے نمائندوں نے اس بل کے حق میں ووٹ دیا۔ اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام ف، جماعت اسلامی اور سابق فاٹا ارکان نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے بائیکاٹ کیا جبکہ سابق فاٹا ارکان علی وزیر اور محسن داوڑ نے اس بل کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی جن پر قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت نہ کرنے پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔

آج کے اجلاس میں چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ نون کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور شاہد خاقان عباسی نے شرکت نہ کی۔ اب اس بل کو سینیٹ میں منظوری کے لیے بھیجا جائے گا اور وہاں سے منظوری کے بعد صدر پاکستان کے دستخطوں کے ساتھ یہ بل قانون کی حیثیت حاصل کر لے گا۔

 پاکستان پیپلز پارٹی نے اس ایکٹ کے حوالے سےکچھ سفارشات پیش کی تھیں۔ بلاول بھٹو نے پیر چھ جنوری کو بیان دیا تھا کہ ان کی پارٹی کی جانب سے اسمبلی میں آرمی ایکٹ بل پر کچھ تجاویز جمع کرائی گئی ہیں۔ ان سفارشات میں یہ تجویز بھی شامل تھی کہ وزیراعظم قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے آگے اس ایکٹ میں ترمیم کی وجوہات بتائیں۔ لیکن وزیر دفاع کی درخواست پر پیپلز پارٹی نے اپنی سفارشات واپس لے لیں۔

DW/Web desk

Comments are closed.