بھارتی مسلمانوں کا کیا مسئلہ ہے؟

جمیل خان

الباکستان میں دیپیکاپدوکون کے بعد نصیرالدین شاہ کی سرکاری سطح پر بے حدپذیرائی کی جارہی ہے۔ نصیرالدین شاہ متنازعہ بیانات دے چکے ہیں۔ وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ہندوستان اب مسلمانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا۔

ہندوستان میں مسلمان لگ بھگ تیرہ فیصد کی تعداد میں بستے ہیں، اقلیت میں ہونے کے باوجود نصیرالدین شاہ کے بھائی ضمیرالدین شاہ ہندوستانی فوج کے ڈپٹی آرمی چیف کے عہدے پر فائز ہوئے۔ کیا ہم الباکستان سمیت کسی بھی مسلم ملک سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہاں کی غیرمسلم اقلیت کے کسی فرد کو ایسا کوئی حساس عہدہ دیا جاسکتا ہے؟

ہندوستان میں ان دنوں سیاسی ماحول بہت گرم ہے، نوجوان طالبعلم بڑی تعداد میں مظاہرے کررہے ہیں…. مُدّا ہےسی اے اے کا….جس کے تحت 2014ء سے آئے ہوئے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے وہ افراد جو سکھ، ہندو، عیسائی اور جین مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان ممالک میں ان کی حیثیت اقلیت کی ہے، ان ملکوں میں انہیں اپنے مذاہب کی رسومات پر عمل کرنے میں رکاوٹوں کا سامنا ہے، چنانچہ ان لوگوں کو ہندوستان کی شہریت دی جائے گی۔

ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان میں بڑی تعداد میں غیرمسلموں کو تشدد آمیز مخالفت اور دہشت گردانہ جبر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سی اے اے میں ہندوستان میں بسنے والے  مسلمانوں کے خلاف کوئی نکتہ موجود نہیں ہے۔اس قانون میں صرف یہ ہے کہ ہندوستان میں باہر سے آنے والے مسلمانوں کو شہریت نہیں دی جائے گی۔ لیکن ہندوستان کے مسلمان سڑکوں پر بیٹھے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو تین طلاق بل کے خلاف بھی ایسی ہی اُچھل کود کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ انہیں حلالہ جیسی بے حیائی قبول ہے۔

الباکستان کی جانب سے ہندوستان کے اس اقدام کی مخالفت کوئی جواز بظاہر دکھائی نہیں دیتا ہے، اس لیے کہ یہاں سندھ میں افغانی، روہنگیا اور بنگالیوں کی بڑی تعداد کو بسایا گیا، اور انہیں پاکستان کی شہریت بھی دے دی گئی، جس کی وجہ سے سندھ کی ڈیموگرافک صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی، سندھ کا رواداری اور اعلیٰ ظرفی پر مبنی کلچر تباہ ہوگیا۔

اگر ہندوستان میں حزب مخالف کی سیاسی جماعتیں سی اے اے اور این آر سی کے حوالے سے مسلمانوں کا ساتھ دے رہی ہیں تو یہ ان کی سیاستی حکمت عملی ہے، لیکن اگر یہی جماعتیں اقتدار میں آئیں گی تو خود این آر سی کا نفاذ کریں گی۔

آپ اس بات کو یوں سمجھیے کہ پاکستان میں وہ کون ساکام ہے جو کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کے بغیر کے بغیر ممکن ہے، اسکول میں بچے کا نرسری میں داخلہ بھی ہوگا تو ماں باپ دونوں کا شناختی کارڈ چاہیے ہوگا۔ شناختی کارڈ کا نظام تو پاکستان میں بھٹو نے قائم کیا تھا۔

ہندوستان اس حوالے سے کس قدر پیچھے ہے کہ وہاں ایسا کوئی نظام اب تک قائم نہیں ہوسکا ہے، ہمارے ہاں تو اب سب کچھ بایومیڑک ہے، ہم بایومیٹرک کے ذریعے ہی موبائل سم حاصل کرتے ہیں، اب تو مقدمہ دائر کرنا ہو یا کرائے پر گھر دینا ہو، شناختی کارڈ کی کاپی کے ساتھ ساتھ بایومیٹرک تصدیق لازمی ہے۔

ایسا ہی کچھ اب جاکر ہندوستان میں ہونے جارہا ہے، ہمارے ہاں بھی شناختی کارڈ بنوانے میں بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن آج بھی پاکستانیوں کی اکثریت کے پاس شناختی کارڈ موجود ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کا مسئلہ کیا ہے؟ سمجھ میں نہیں آتا، ایک طرف وہ ہندوستان میں سیکولر ازم بھی چاہتے ہیں، لیکن فرسودہ مذہبی روایات اور احکامات کے نفاذ کے لیے مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی انہیں درکار ہے۔ مسجدیں اور مدرسے بناتے ہوئے غربت کے باوجود نجانے کہاں سے سرمایہ مہیا ہوجاتا ہے، لیکن اسکول اور کالج بنانے سے متعلق چپ سادھ لیتے ہیں، چلیں جو کالج اسکول قائم ہیں، انہی میں اپنے بچوں کوبھیجیں تو ان میں بھی نہیں بھیجتے اور ان کی اکثریت لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتی۔

یہ وہ لوگ ہیں، جن کے آباو اجداد نے تقسیم ہندوستان کے وقت پاکستان کے نام پر مسلم لیگ کو ووٹ دیے تھے، جبکہ جس خطے میں یہ لوگ پاکستان بنانا چاہتے تھے، وہاں کے مقامی باشندوں کو پاکستان کے قیام سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔کل بھی انہوں نے تباہی و بربادی کو چُنا تھا، آج بھی اپنی جہالت میں ایسی ہی کسی شئے کا انتخاب کرنے جارہے ہیں۔

Comments are closed.