ان پڑھ جینز اور تعلیم یافتہ شلوار


مسعود قمر

میڈیکل کی تعلیم بہت مشکل تعلیم ہے اس کے طالب علموں کو نویں جماعت میں ہی بڑے نمبروں والی عینک لگ جاتی ہے ، مگر بعص بد نصیبوں کو پھر بھی میڈیکل کالجوں میں داخلہ نہیں ملتا تھا ، ایسے عینک یافتہ طالب علموں کے لیے بھٹو نے لائل پور میں پنجاب میڈیکل کالج کی بنیاد رکھی ، اور پھر یہ کالج پنجاب کا نمبر ون کہلایا جانے لگا ۔

اس کالج کو کالج بنانے میں جہاں کالج کے پرنسپل ڈاکٹر فتح محمد ( مزدور کسان پارٹی کے صدر میجر محمد اسحاق کے بڑے بھائی) ڈاکٹر نصیر، ڈاکٹر احسان اور دوسرے ترقی پسند پروفیسروں کا ہاتھ ہے وہیں کالج کی پہلی کلاسوں میں داخل ہونے والے ان طالب علموں کا بھی بڑا حصہ جنہوں نے اس کالج میں ترقی پسند طالب علموں کا ایک بہت بڑا گروہ پیدا کیا ، جس نے اس وقت کے سیاہ ترین آمر ضیا کے خلاف جواں مردی سے مزاحمتی رول ادا کیا ۔

لائل پور میں اس وقت جو ضیا آمر کے خلاف آوازیں بلند ہوئی تھیں ان میں سب سے بڑی اور اونچی آواز لائل پور کے میڈیکل کالج کے طالب علموں کی تھی ، ان طالب علموں کا سر براہ افتخار فیصل (جو تائے کے نام سے مشہور ہے) تھا اس کے ساتھ جاوید انور، داور، استاد مانی ندیم ثاقب، شہزادہ ، وحید احمد ، حسین عابد اور بہت سے ترقی پسند طالب علم تھے ۔

یہ سب فنون لطیفہ کی کسی نہ کسی صنف سے وابستہ تھے ، کوئی آسمان کی طرف رنگ اُچھالتا تو تصویر بن جاتی، کوئی سُروں سے شہر کی صبح کراتا، شاعری تو ہرایک کی جیب میں پڑی ہوتی ، شہر کے چائے خانوں کی ہر میز میں وحیداحمد ، جاوید انور ، ندیم ثاقب اور حسین عابد کی شاعری کی اذان مشترکہ طور پہ سنی جاتی تھی، کوئی چائے کا کپ آگے رکھے کافکا کے طاعون کو چائے کی بھاپ میں دکھا رہا ہوتا، کوئی سگریٹ اور سارتر کا انتظار کرتا نظر آتا۔

کہاں یہ کالج اس مقام تھااور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کہاں اب یہ عالم ہے کہ

کالج کی انتظامیہ نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے کہ کوئی طالب علم جینز جوگر پہن کر کالج میں نہ آئے ، طالبات جینز ، اسکرٹ ، جوگر پہن کر کالج نہیں آ سکتیں ۔ کالج کی انتظامیہ کے نزدیک شاید جینز، اسکرٹ اور جوگر پہنے والے اپنی پڑھائی پہ توجہ نہیں دیتے اور فیل ہو جاتے ہیں مگر شلوار قمیض اور دوپٹہ اوڑھنے والی طالبات پڑھاکوہوتی ہیں اور فسٹ کلاس حاصل کرتی ہیں۔

پہلے لباس کو مذہب اور فرقوں میں تقسیم کیا گیا اب لباس کو تعلیم اور غیر تعلیم یافتہ میں تقسیم کردیا ہے۔

ویکھی جا مولا دے رنگ

Comments are closed.