اللہ بخش سومرو کا قتل اور خان بہادر ایوب کھوڑو

لیاقت علی

روزنامہ ڈان ہر روز پچاس سال قبل اور ستر سال قبل کے عنوانات کے تحت روزنامہ ڈان میں شایع ہونے والی خبریں دوبارہ شایع کرتا ہے۔آج کے ڈان میں ستر سال قبل روزنامہ ڈان میں شایع ہونے والی جس خبر کو شایع کیا گیا ہے اس کا تعلق تحریک قیام پاکستان اور سندھ کی سیاست سے بہت گہرا تعلق ہے۔خبر کے مطابق 26 جنوری 1945کو سندھ کے سابق وزیر اعظم اللہ سومروکے مقدمہ قتل میں وکیل صفائی نے دلائل دیئے اور موقف اختیار کیا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے اور مقدمہ میں ملوث ملزمان بے گنا ہ اور بے قصور ہیں۔

سندھ کے جس وزیراعظم اللہ بخش سومرو کے مقدمہ قتل کا ذکر اس خبر میں کا ذکر کیا گیا ہے انھیں بہت کم لوگ جانتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف مسلم لیگ کے مخالف تھے بلکہ دوقومی نظریہ کو بھی درست خیال نہیں کرتے تھے۔ انھوں نے دوقومی نظریئے کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کو مسترد کردیا تھا اور ان تمام مسلم سیاسی جماعتوں کو جو مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہند کی مخالف تھیں، ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا تھا۔

اللہ بخش کے مقدمہ قتل میں ویسے تو ایک سے زائد ملزمان نامزد تھے لیکن اس مقدمے کے بڑے ملزم سندھ ہی ایک اور سیاسی رہنما اور بعد ازاں وزیر اعلی خان بہادر ایوب کھوڑو کا نام نمایاں تھا بلکہ سیاسی اور سماجی حلقوں میں برملا یہ کہا جاتا تھا کہ یہ قتل کرایا ہی ایوب کھوڑو نے تھا کیونکہ وہ اللہ بخش سومرو کو اپنی سیاست کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ ان پر اور ان کے بھائی حاجی محمد نواز پر قتل کی سازش کا الزام تھا۔

اللہ بخش سومرو کا تعلق سندھ کے شہر شکار پور سے تھا۔ جاگیردارانہ سماجی پس منظر کے حامل سومرو کنٹریکٹر بھی تھے۔ انھوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز 1923 میں کیا اور سکھر ڈسٹرکٹ بورڈ کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ بعدازاں وہ سکھر بورڈ کے صدر منتخب ہوگئے۔1926میں وہ بمبئی قانون ساز کونسل کے رکن منتخب ہوگئے۔ کونسل کے رکن کی حیثیت میں انھوں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا۔1934میں انھوں نے سندھ پیپلزپارٹی کے نام سے اپنی سیاسی جماعت قائم کی جس کا نام بعد ازاں بدل کر اتحاد پارٹی رکھ دیا گیا تھا۔

سنہ1936میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے بعد سومرو سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ اللہ بخش سومرو کواعزاز حاصل ہے کہ وہ دو مرتبہ۔۔ مارچ 1938 تا نومبر  1940اور   مارچ 1941تا اکتوبر1942  تک وزیر اعظم سندھ منتخب ہوئے تھے۔اللہ بخش سومرو نے برطانوی سرکار کی جابرانہ پالسیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے خطابات واپس کردیے جس پر برطانوی حکومت نے انھیں ان کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔ سومرو وہ پہلے صوبائی وزیر اعلی تھے جنھیں برطرف کیا گیا تھا۔

اللہ بخش سومرو کو 14۔مئی 1943 کو کرائے کے قاتلوں نے اس وقت قتل کردیا جب وہ اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہی میں تانگے پر سوار شکار پور آرہے تھے۔ قتل کا مقدمہ خان بہاد ایوب کھوڑو، ان کے بھائی حاجی محمد نواز اور تین دیگر افراد کے خلاف درج کیا گیا تھا۔ ایف۔آئی۔آر کے مطابق خان بہادر ایوب کھوڑو اور ان کے بھائی حاجی محمد نوازنے اللہ بخش سومرو کے قتل کی سازش تیار کی تھی اور اس سازش کو عملی جامہ دیگر تین نامزد ملزموں نے پہنایا تھا۔ خان بہادر ایوب کھوڑو اور دیگر ملزموں پر مقدمہ چلا لیکن سیشن کورٹ ہی سے تمام ملزم بری ہوگئے تھے۔

یہ امر دلچسپ ہے کہ برطانوی حکومت نے سیشن کورٹ سے بریت کے اس فیصلے کے خلاف کوئی اپیل فائل نہیں کی تھی۔ اللہ بخش کے قتل کے بعد سندھ کی سیاست میں مسلم لیگ کی راہیں کشادہ ہوتی چلی گئیں۔

گو ایوب کھوڑو اور ان کے بھائی پر عدالت میں اللہ بخش سومرو کے قتل کا مقدمہ ثابت نہ ہوسکاتھا لیکن یہ الزام ساری عمر ایوب کھوڑو کا پیچھا کرتا رہا اور سیاسی حلقوں میں آج تک یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ ایوب کھوڑو کسی نہ کسی سطح پر اللہ بخش کے قتل کی سازش میں ملوث تھے۔

One Comment