بھارت: مسلمانوں کو مذہبی نہیں سیکولر قیادت کی ضرورت ہے

ظفر آغا

ہندوستانی مسلمان اس وقت جس قدر بدترین حالات سے گزر رہا ہے اس کی نظیر آزادی کے بعد سے اب تک کہیں نہیں ملتی۔ مودی راج کے پہلے دور میں جان کا خطرہ تھا، لنچنگ کے ذریعہ کوئی بھی مسلمان کسی وقت کہیں بھی مارا جا سکتا تھا۔ لیکن سنہ 2019 میں لوک سبھا میں بھاری اکثریت کے ساتھ جیتنے کے بعد مودی کی قیادت میں سنگھ نے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ باقاعدہ اس ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کر دے گا۔

چنانچہ یہ کام فوراً شروع ہو گیا۔ اور اب پوری یہ کوشش ہے کہ ہندوستانی مسلمان کو شہری قانون اور این آر سی کے ذریعہ باقاعدہ غلام بنا لیا جائے۔ جیسے کبھی غلاموں کے کوئی اختیار نہیں ہوتے تھے اور ان کو ایک طرح کی قید میں رکھا جاتا تھا، ویسے ہی مسلمانوں کی پہلے شہریت ختم کر ان کو غلامی کا درجہ دے دو۔ کیونکہ جب کوئی شخص کسی ملک کا شہری ہی نہیں رہے گا تو پھر ظاہر ہے وہ ہر قسم کے آئینی اختیارات اور تحفظ سے محروم ہو جائے گا اور پھر اس طرح فطری طور پر غلام ہو جائے گا۔ اور اس کو قید کرنے کے لیے مودی حکومت نے ابھی سے کیمپ بنانے شروع کر دیے ہیں۔ یعنی جیسے پہلے کبھی امریکہ میں افریقی نیگرو کو شہری آبادی سے الگ کم و بیش قید میں رکھا جاتا تھا، ویسے ہی مسلمانوں کو کیمپوں میں قید رکھے جانے کی تیاری ہے اور آسام میں یہ عمل شروع بھی ہو چکا ہے۔

اس اکیسویں صدی میں دنیا میں اس سے بدتر حالات کسی قوم کے نہیں ہو سکتے جیسے کہ اس وقت ہندوستانی مسلمان کے ہیں۔ ان اندوہناک حالات میں ایک سنگین المیہ یہ بھی ہے کہ قوم کو ان پریشانیوں میں راستہ دکھانے والا کہیں دور دور تک کوئی نہیں ہے۔ ابھی تک جو نام نہاد علما کی مسلم قیادت تھی اس نے مسلمان کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ سچ تو یہ ہے کہ اللہ ہر قوم کو ایسی قیادت سے بچائے جیسی قیادت اس ملک کے مسلمان کو نصیب تھی۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ، بابری مسجد ایکشن کمیٹی اور طرح طرح کے مسلم پلیٹ فارم کے نام سے علماء یا علماء کی سرپرستی میں جو افراد مسلم معاملات پر بڑے بڑے جذباتی بیان دیتے تھے اور شریعت کے تحفظ کی قسمیں کھاتے تھے، آج ان علماء اور ایسے ذاتی مفاد پرست افراد کا کہیں دور دور نام و نشان نظر نہیں آ رہا ہے۔ اب یہ پتہ چلا کہ قرآن اور شریعت کا نام لے کر یہ تمام افراد طرح طرح کی دکانیں چلا رہے تھے۔ ان کا بنیادی مقصد ملت کی فلاح نہیں بلکہ ملت کے جذبات کا استعمال کر مسلم ایشوز پر دنیا بھر سے چندہ جمع کر اپنے مفاد حاصل کرنا تھا۔ تب ہی تو یہ عالم ہے کہ ملت غلامی کی کگار پر ہے اور ایسے علماء مہنگی سے مہنگی کاروں اور جہازوں پر سوار ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ایسی ضمیر فروش قیادت سے پوری طرح صرف کنارہ کشی ہی نہیں کی جائے بلکہ ایسے تمام قائدین ملت کا بائیکاٹ کیا جائے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اس وقت اس بے چارگی کے عالم میں کیا ہو! اس سے قبل کہ اس کا جواب تلاش ہو، پہلی بات پچھلے تجربات کے بعد یہ سمجھ لینی چاہیے کہ یہ جو اسلام، مسلمان، شریعت جیسے لیبل کے ساتھ جو نام نہاد مسلم پلیٹ فارم بنتے ہیں یا پہلے سے بنے ہیں، وہ ہندوستانی مسلمان کے قطعاً مفاد میں نہیں ہیں۔

دوسری بات یہ بھی طے ہے کہ خالص مسلم تحریک جیسے کہ بابری مسجد تحفظ تحریک تھی، یا طلاق ثلاثہ کی تحریک تھی، ایسی ہر تحریک سے مسلمانوں کو نقصان ہوا جب کہ ہر ایسی تحریک سے بی جے پی کو قوت ملی۔ کیونکہ خالص مذہبی اڈیم اور پیرائے میں ہونے والی مسلم تحریک کے رد عمل میں بی جے پی نے ہندو پلیٹ فارم بنا کر مسلم منافرت کی سیاست کو کامیاب بنا لیا۔ بڑی سیدھی سی بات ہے کہ اگر نعرہ تکبیر لگے گا تو جواباً جے سیا رام ضرور لگے گا۔

اگر مسلم ایشو کی قیادت علماء کریں گے تو وشو ہندو پریشد سادھو اور سنتوں کا استعمال کر ہندو اشتعال پیدا کرے گی۔ وہ چاہے تین طلاق کا معاملہ رہا ہو یا پھر بابری مسجد تحفظ کا معاملہ رہا ہو، دونوں تحریکوں کا نتیجہ یہی نکلا کہ مسجد گئی، مسلمان مارے گئے، تین طلاق کا حق گیا اور ادھر بی جے پی کو مودی جیسے مسلم منافرت کی سیاست کرنے والا لیڈر پیدا ہوا اور بی جے پی کو پارلیمنٹ میں بھرپور اکثریت ملی۔ مسلم ووٹ بینک بے معنی ہو گیا جب کہ بی جے پی ہندو ووٹ بینک بنا کر مسلمانوں کو غلامی کی کگار پر لے آئی۔

لب و لباب یہ کہ مسلمان کے پاس اس ملک میں سیکولر پلیٹ فارم اور سیکولر سیاست کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔ علماء اور شریعت کے نام پر ہونے والی ہر سیاست کا نقصان مسلمان کو ہوگا اور اس کا فائدہ صرف مودی اور سنگھ کو ہوگا۔ پچھلے کم ا زکم تیس برس کا تجربہ یہی بتاتا ہے۔ اس لیے اسلامی، مسلم، شریعت کے نام پر چلنے والی ہر تحریک کو بی جے پی مددگار تحریک سمجھ کر اس سے دور رہیے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ابھی کیا ہو! اس کا جواب جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شروع ہونے والی تحریک کے ذریعہ بچوں نے دے دیا ہے، وہ جواب کیا ہے! جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تحریک میں کہیں کوئی نعرہ تکبیر نہیں لگا۔ کسی عالم دین کا کہیں کوئی نام نہیں تھا۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں آئین کے تحفظ کی لڑائی لڑ رہے تھے۔ ان کی مانگوں اور نعروں میں کہیں لفظ مسلم یا مسلمان نہیں تھا۔ وہ صرف یہی کہہ رہے تھے کہ شہری قانون 2019 آئین کی رو سے قطعاً غلط ہے۔ اس لیے ہماری مانگ ہے کہ اس قانون کو بدلا جائے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا! فوراً ہزاروں کی تعداد میں ہندو نوجوان جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بچوں کی مدد کو پہنچ گیا۔ اور دیکھتے دیکھتے شہری قانون کا مسئلہ ایک قومی تحریک بن گیا۔ اس کا سیاسی نتیجہ کیا رہا!۔

یہ تحریک آئین تحفظ تحریک بن جانے سے بی جے پی کی اس قانون کے ذریعہ ہندومسلم منافرت پیدا کرنے کی حکمت عملی ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی۔ دوسری سب سے اہم بات جو ہوئی وہ یہ کہ آئین تحفظ کے نام پر خود ہندو اکثریت دو بڑے حصوں میں بٹ گئی۔ ہندو اکثریت کا ایک بہت بڑا لبرل طبقہ اور بہت سارے انصاف پسند نوجوان اس تحریک میں مسلمانوں کے ساتھ کاندھا سے کاندھا ملا کر اس جدوجہد میں شریک ہو گئے۔ اگر یہی تحریک کسی خالص مسلم پلیٹ فارم سے علما ء اکٹر مسلم قیادت کے پرچم تلے چل رہی ہوتی تو ایسا ہر گز نہیں ہوتا۔

اس لیے شہری قانون بدلو تحریک صرف آئین کے تحفظ کی جدوجہد رہنی چاہیے۔ مساجد و مدارس اس کے مراکز نہیں ہونے چاہئیں۔ اسلامی یا مسلم لیبل کا پلیٹ فارم نہیں ہو۔ اس تحریک میں غیر مسلم سوشل سوسائٹی کے لبرل افراد برابر کے شریک ہوں اور تحریک ہر قیمت پر پرامن رہے۔ اگر کوئی تشدد یا توڑ پھوڑ کرتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ وہ بی جے پی ایجنٹ ہے جو پولس کو آپ پر مظالم ڈھانے کا موقع پیدا کر رہا ہے۔ اس لیے ایسے عناصر کو فوراً کنٹرول کیجیے۔

گھبرائیے بالکل نہیں، یاد رکھیے کہ ہندوستان ایک عظیم الشان ملک ہے اور مودی جیسے اس ملک کی گنگاجمنی تہذیبی وراثت کو راتوں رات مٹا نہیں سکتے ہیں۔ یہ آپ کا وطن ہے اور آپ کو سنگھ غلام نہیں بنا سکتی۔ ڈریے مت کیونکہ آپ اکیلے نہیں ہیں۔ کروڑوں ہندو آپ کے ساتھ ہیں کیونکہ وہ بھی اس ملک کو ہندو راشٹر نہیں بنتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ پھر ایک نہیں، ہندوستان کی زیادہ تر صوبائی حکومتیں شہری قانون کے خلاف ہیں۔

ارے بڑے بڑے لیڈران جیسے بنگال کی ممتا بنرجی، کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پینارائی وجین، کانگریس کی سونیا گاندھی، راہل گاندھی، پرینکا گاندھی جیسے درجنوں لیڈران اس جدوجہد میں آگے آگے ہیں۔ یہ جدوجہد محض اس ملک کے آئین کے تحفظ کی جدوجہد نہیں ہے، یہ تو اس ملک کی صدیوں پرانی گنگاجمنی وراثت کے تحفظ کی جدوجہد ہے۔ اس میں ہر حال میں کامیابی حاصل ہوگی۔ شرط صرف یہ ہے کہ اس جدوجہد کو صرف آئین کا تحفظ رہنے دیجیے۔ اس کو ہر طرح کے مسلم یا اسلامی لیبل سے بچائے رکھیے۔ اسی میں آپ کی اور ملک کی فلاح ہے۔

روزنامہ قومی آواز، نئی دہلی

Comments are closed.