جائیں تو جائیں کہاں  

شہزاد عرفان

سیاسی جماعتوں کی ناکام حکمت عملی مفاہمت کی سیاست اور مایوس کارکردگی سے پہلے عوام میں ووٹر اپنی پارٹی چھوڑ جاتا تھا مگر جب سے پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں نے فوجی آمریت کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے انھیں عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کا آئینی راستہ دیا ہے  اب سیاسی جماعتوں سے اسکے اپنے پرانے کارکن مایوس دلبرداشتہ ہوکر اپنی جماعتیں چھوڑ نے پر مجبور  ہیں ۔

فوجی اسٹبلشمنٹ نے عدلیہ کے ساتھ مل کر پاکستانی عوام کے ساتھ ایسا گھناؤنا نفسیاتی کھیل کھیلا ہے کہ  عوام سے انکی محبوب سیاسی جماعتیں چھین کر انہیں اپنی بندوق کی طاقت کے رحم و کرم پر تنہا نشانے پر رکھ لیا ہے اور جوعوام اور سیاسی جماعتوں کے درمیان نظریہ کا بچا کچھا  باریک سا دھاگہ بھی ٹوٹ چکا ہے  ۔

ان سیاسی جما عتوں  کے کارکن بیچ چورہائے میں تن تنہا یہ سوال لئے کھڑے ہیں کہ اب جائیں تو کدھر جائیں ایک طرف  طاقتور فوجی آمر عوام کے سامنے بندوق تانے کھڑے ہیں تو دوسری طرف کرپٹ سمجھوتے باز آمروں کے آگے لیٹ جانے والے جاگیردار سرمایہ دار  کار خانے دار  سیاسی تاجروں کا ٹولہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھے اقتدار کی حوس میں اندھے ہوکر عوام کی بولی فی راس لگا رہے  ہیں۔ 

یہ عوام اس ریاست کے شہری ہیں جنہیں  اب تک دنیا کا ہر ملک اسلامی  دھشت گرد سمجھتا ہے کیوں کہ جب ریاست ہی خود کو آزاد ریاست کی بجائے اسلام کا بند قلعہ سمجھتے ہوئے عالمی دھشت گرد پالے  دہشت گردوں کی تنظیموں کی سرپرستی کرے آئین میں ترامیم کرکے جمہوری آئین کی شکل بگاڑ کر اسے پتھر کے زمانے میں لے جائے اور نام مدینے کی ریاست کا دےتو پھر دنیا پاکستانی شہریوں  کو اپنے ملک میں آنے سے پہلے دہشت گرد کیوں ک نہ سمجھے۔

  اب ایسے حالات میں صاف ظاہر ہے کہ عوام   کے پاس کوئی اور چاره باقی نہیں بچتا کہ وہ یا تو ریاست پاکستان میں ہمیشہ کے لیے جمہوریت کی امید چھوڑ کر اس آمریت  کی دوزخ کا ایندھن بننے پر مجبور اپنی آئندہ نسلیں تباہ کرلیں یا پھر  اس چپ اور خاموشی کی فضا کو تو ڑیں باہر آئیں بغیر کسی سیاسی جماعتی تقسیم صوبائی قومی لسانی مذہبی تقسیم کے ایک دوسرے کی طاقت بن کر نام نہاد جب الوطنی اور اسلامی یکجہتی کے واسطوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے اور اپنے بچوں کی روزی روٹی اور مستقل کے لیے آمروں کے آگے ڈٹ جائیں ۔

آج پوری دنیا کے عوام بغیر کسی سیاسی جماعتوں کے باہر نکل کر ڈٹ گئے ہیں انڈیا چین روس ایران افریقہ اور  لاطینی امریکہ کے کئی ممالک میں عوام تن تنہا آمروں کی حکومتوں سے نبردآزما ہیں ہر برج گرا رہے ہیں انھیں  نہ سردی  نہ گرمی نہ بھوک نہ پیاس کی پرواہ ہے اگر درد ہے تو صرف اپنے بچوں کا ڈوبتا مستقبل  سامنے ہے ۔۔۔

بھوک غربت و افلاس نے جوبت ذہنوں میں تراشے تھے وہ ایک ایک کرکے ڈھا رہے ہیں ۔ یہ عقیدوں مذاہب  کے بت ،سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے بت  قوم پرستی کے بت حب الوطنی کے بت  نظریات کے بت  سب کو عوام نے توڑ کر پاش پاش کردئیے ہیں بھوک اور  ننگ کو  آداب جمہوریت میں ڈھال کر انسانوں کو غلامی کی زنجیر سے نہیں باندھا جاسکتا اور نہ ہی اسلحے بارود کے ڈھیر کو مقدس گائے بنا سجدہ  کیا جاسکتا ۔ 

One Comment