کیا پاکستان میں مقدمات کی منصفانہ سماعت ممکن ہے؟

بیرسٹرحمید باشانی

یہ جنوری چوبیس کا دن ہے۔  سال 1977ہے۔  مقام سپین کا مشہورشہر میڈرڈ ہے۔ اس شہر کے مشہورریلوے سٹیشن اٹوچا کے نزدیک اٹوچا گلی کی پچپن نمبرعمارت کے ایک دفتر میں لیبرلاء کے ماہرقانون، ورکرز کمیشن کے ممبران، ٹریڈ یونین اورکالعدم کمیونسٹ پارٹی آف سپین کے کچھ رہنما جمع ہیں۔  ملک میں جمہوریت اورانسانی حقوق پرگرما گرم بحث اورغوروفکرجاری ہے۔

اچانک دفترکا دروازہ کھلتا ہے، اورشرکائےمحفل پربھاری مشین گنوں سے گولیوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے۔   اس قاتلانہ حملے میں پانچ لوگ مارے جاتے ہیں اورچارشدید زخمی ہوتے ہیں۔  دوسرے دن سپین کا نیو فاشسٹ گروپ اس حملے کی زمہ داری قبول کرتا ہے، اور اس کے فاشسٹ لیڈراس حملے کا دفاع کرتے ہوئے ایک دوسرے کوکامیابی کی مبارک دیتے ہیں۔

 اس واقعے کے خلاف ملک میں شدید ردعمل ہوتا ہے۔  غصے سے بھرے ہوئےلوگ سڑکوں پرامڈ آتے ہیں۔ اٹوچا میں رات کی تاریکی میں مارے جانے والوں کے جنازے میں ایک لاکھ سے زائد لوگ شرکت کرتے ہیں۔ جنازے کے بعد جواحتجاجی اجتماع ہوتا ہےغیرجانب دارحلقوں کے مطابق یہ جرنیل فرانکو کی موت کے بعد سپین میں بائیں بازوکا اس وقت تک سب سے بڑا اجتماع تھا۔

 حکمران طبقات کو حالات کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے۔  وہ حقائق تسلیم کرنے پرمجبورہوجاتے ہیں۔  کمیونسٹ پارٹی سے پابندی اٹھائی جاتی ہے۔  قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں حرکت میں آتی ہیں۔  کچھ لوگ گرفتار ہوتے ہیں۔   تفتیش کے نتیجے میں حیرت انگیزمعلومات سامنے آتی ہیں۔  فاشسٹ نیٹ ورک بے نقاب ہوتا ہے۔  سپین کے علاوہ اٹلی کی کئی قابل اعتباررپورٹس میں انکشاف ہوتا ہے کہ اس حملے میں اٹلی کے نیوفاشسٹ حملہ اوربھی شامل  تھے۔ فاشسٹوں کے اس وحشیانہ حملے میں مارے جانے والوں میں چاروکلاء اورایک لیگل اسسٹنٹ شامل تھا۔

 سپین میں ان لوگوں کی یاد میں ہرسال چوبیس جنوری کا دن بنایا جانے لگا۔  یہ دن آہستہ آہستہ سپین سے نکل کرپوری دنیا میں پھیل گیا۔  اب اس واقعے کی یاد میں ہرسال پوری دنیا میں چوبیس جنوری کوخطرے کے شکاروکلا کا عالمی دن بنایا جانے لگا۔   دنیا بھر میں ہرسال اس دن ان وکلاء کو یاد کیا جاتا ہے، جنہوں نےقانون کی حکمرانی ، اورانسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا۔  اس میں ان خطروں کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے، جو مختلف ممالک میں آج کے دور میں مجموعی طورقانونی پیشے سے وابستہ افراد کودرپیش ہیں۔

  اس دن ان ممالک کے بارے میں بات کی جاتی ہے، جہاں خصوصی طور پر وکلاء کے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران ان کے بنیادی حقوق پرقدغن لگائی جاتی ہے۔   یہ دن کئی مغربی ممالک کی وکلا کی انجمنیں اورلاء سوسائٹیز مناتی ہیں۔  یہ دن منانے کے لیےہرسال کسی ایسے ملک کا انتخاب کیا جاتا ہے، جہاں وکلاء کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنی جان ومال کو خطرات درپیش ہوتے ہیں، جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں، اورجہاں قانون کی حکمرانی کو خطرات درپیش ہوتے ہیں۔

اس سال یہ عالمی دن پاکستان کے وکلا کے نام کیا گیا ۔ چوبیس جنوری کو نیوزی لینڈ آسٹریلیا، انگلینڈ کی لاء سوسائٹیوں کے علاوہ لاء سوسائٹی اف انٹاریو، کینیڈاکے زیراہتمام  بھی یہ دن بنایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں جو تقریب منعقد کی گئی ، اسکو ہیومن رائٹس واچ، کنیڈین لائرزواچ، اورایمنسٹی انٹرنیشنل نےمشترکہ طورپرسپانسرکیا تھا۔ اس موقع پرگفتگو کے لیے پاکستان میں کنیڈا کے سابق سفیر فیری دے کرکھو، پاکستان سے کچھ سنئیرایڈیٹرزدانشور، کنیڈا سے پروفیسرز اور لاء سوسائٹی کے بنچرزشامل تھے۔

اس موقع پرراقم کی گفتگو کا حاصل یہ تھا کہ پاکستان میں وکلاء کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران کس قسم کے خطرات اورمشکلات درپیش ہیں، اور ان کا کس طرح ازالہ کیا جا سکتا ہے ۔  اوراس تناظر میں فوکس اس بات پرکیا کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کو کیا مشکلات درپیش ہیں۔

اس کانفرنس کےایجنڈے پروہ تمام مسائل شامل تھے ، جن کا تعلق کسی نہ کسی طریقے سے قانون کی حکمرانی سے جڑتا ہے۔  ان موضوعات میں ایک بڑا موضوع فئیر ٹرائل بھی تھا۔  فئیر ٹرائل کے لیے اردوزبان میں کسی مناسب یا عام فہم اصطلاح کی عدم موجودگی ہی بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ہاں منصفانہ سماعت کاتصورکس قدرمبہم ہے۔

 منصفانہ سماعت ایک طویل اورصبرآزما عمل کا نام ہے، جس میں مقدمے سے جڑے تمام فریق، پولیس، عدالتی سٹاف، وکیل، جج کا ایک بنیادی اوراہم کردار ہوتا ہے۔  ان میں سے اگر کوئی ایک بھی اپنا کرداردرست طریقے سے ادا نہ کرے تو منصفانہ سماعت کا عمل متاثر ہوتا ہے۔

 ہمارے ہاں فوجداری مقدمات کےشروع میں ہی پولیس کے کردارکی وجہ سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جاتے۔  پولیس کا کردارکئی طریقوں سے مقدمات پرمنفی اندازمیں اثراندوز ہوتا ہے۔  پولیس کی عدم دلچسبی، نا اہلی، رشوت وشفارش اورغیر پیشہ وارانہ انداز کی وجہ سے مقدمات کی شروعات میں ہی بگاڑ شروع ہوجاتی ہے۔  چنانچہ جب مقدمہ عدالت میں پہنچتا ہے تو اس پر پولیس کا کام اثر ڈالتا ہے۔  ان میں کمزوراورناکافی شہادتیں، جھوٹی گواہیاں اورکمزورثبوت شامل ہوتے ہیں، جنکی بنیاد پرمقدے کا رخ متعین ہوتا ہے۔

 اس کے بعد وکلا کا کردارشروع ہوتا ہے۔  بعض وکلا میں بھی پولیس کی طرح سستی ، کاہلی اور ناہلی سے لیکر پیشہ ورانہ بددیانتی تک کے معاملات پائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔  اس کے بعد معاملہ جج حضرات تک پہنچتا ہے۔  ہماری نچلے درجے کی عدالتوں میں رشوت اورشفارش کے ذریعے مقدمات پراثراندازہونے کےرحجانات عام ہیں ، جن کی موجودگی میں منصفانہ سماعت یا انصاف کے تقاضے پورے ہونے کا خواب ادھوراہے۔

 ایجنڈے کا ایک نقطہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اورقانون کی حکمرانی بھی تھا۔  یہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی شدت پسندی قانون کی حکمرانی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج رہی ہے۔  مذہبی شدت پسندی کے زیراثرماضی میں کئی گروہ ریاست اور قانون سے مکمل بغاوت کا اعلان کرتے رہے ہیں۔  عسکریت پسندی اوردہشت گردی اس کے واضح مظہررہے ہیں۔  نفاذشریعت کے نام پرسوات میں با ضابطہ بغاوت سے لے کر شہروں میں خود کش حملے اور دہشت گردی کی دوسری کاروائیاں قانون کی حکمرانی پر براہ راست حملے تھے۔

  شدت پسندی کا قانون کی حکمرانی پراثراندازہونے کا دوسرا طریقہ جج حضرات کے لیے خوف وہراس کی فضا پیدا کرنا ہے تاکہ وہ وہ شدت پسندوں کو سزا دینے سے اجتناب کریں۔  ماضی میں نچلے درجے کی عدالتوں میں اس طرح کے بے شمار واقعات ہوئے ہیں،  جہاں شدت پسندوں اوردہشت گردوں کے معاملے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے، جس کی وجہ جج حضرات کو درپیش جان کے خطرات تھے۔

ایجنڈے کا ایک نقطہ توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال بھی تھا۔  پاکستان میں تاریخی طورپرتوہین مذیب کے مقدمات میں بھی وکلا، اورجج حضرات کوسخت قسم کےدباو اورجان کے خطرات درپیش رہے ہیں۔  کچھ وکلا کو یہ مقدمات لڑنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

سابق صدرجرنیل مشرف کا مقدمہ اوراس کےاتاروچڑھاو بھی قانون و انصاف سے دلچسبی رکھنے والے لوگوں کے لیے ایک کلاسیکل کیس ہے، اس کیس کوابھی منطقی انجام تک پہنچناہے، لیکن اب تک اس کیس نے جو موڑلیے ان میں غور وفکر کے لیے کافی مواد موجود ہے۔  اس تقریب میں یہ کیس بھی مقررین اورشرکاء کے لیے دلچسبی کا باعث رہا۔

پاکستان میں قانون کی حکمرانی اس تقریب کا سب سے اہم موضوع بحث تھا۔ اس باب میں راقم نے عرض کیا کہ قانون کی حکمرانی کے لیے وکلاء کا کردار کلیدی ہے۔  قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے جہاں بعض وکلا کو اپنے موکل کے حقوق کے تحفظ اوردفاع میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، وہاں  دوسری طرف کچھ وکلا کا کرداربھی قانون کی حکمرانی کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔  

حالیہ برسوں میں وکلا کے اندربڑھتے ہوئے تشدد کے رحجانات، قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا عمل، ججز، پولیس اوردوسرے لوگوں پرجسمانی حملے کرنے کے رحجانات میں بہت اضافہ ہوا ہے، جوبذات خود قانون کی حکمرانی پرحملے کے مترداف ہے۔   پاکستان میں قانون کی حکمرانی کوتاریخی تناظرمیں دیکھنے کے لیےاعلی عدالتوں کے کرداراوران کے کیے گئےاہم فیصلوں پر بھی بحث ہوئی۔راقم نے اس باب میں مولوی تمیزالدین کیس، دوسو کیس، یوسف کیس، بیگم نصرت بھٹو کیس، بے نظیربھٹو اورظفرعلی شاہ کے تناظرمیں آئین و قانون کودرپیش مشکلات کا خلاصہ پیش کیا۔

لاء سوسائٹی نے سوال کیا کہ وہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے لیے کیا کرداراد اکرسکتی ہے؟ میرا مختصرجواب تھا کہ سوسائٹی اپنے تجربات شیئر کرے اورتفصیلی جواب میں پاکستانی قانون دانوں پرچھوڑتا ہوں۔

♦  

Comments are closed.