کیا سردارظالم اور وحشی ہوتے ہیں؟


ذوالفقار علی زلفی

ہم لیاری نشین بلوچوں کا سرداروں سے نہایت ہی کم واسطہ رہتا ہے ـ ہم لیاری میں بیٹھ کر ہمیشہ سنتے تھے کہ سردار ظالم ہیں، وحشی ہیں، ترقی مخالف ہیں ـ جب میں نے شعور کی دنیا میں قدم رکھا تو میرے اردگرد صرف بھٹو کے نعرے تھے ـ بلوچ نیشنلزم سے میرا اولین تعارف غوث بخش بزنجو تھے ـ بچپن میں ایک دفعہ اپنے دادا کے ہمراہ مولوی عثمان پارک (بھیّا باغ) کے ایک جلسے میں ان کی ایک تقریر سنی تھی ـ یاد نہیں ہے انہوں نے کیا کہا تھا ـ مجھے تو اس وقت پتہ بھی نہ تھا یہ صاحب کون ہیں جن سے میرے دادا اتنے متاثر ہیں ـ وہ تو بھلا ہو ماما یونس بلوچ کا جنہوں نے جنگیان ہوٹل کے سامنے چوراہے پر تین پہاڑیاں بنا کر اس کا نام بزنجو چوک رکھا ـ

پیپلزپارٹی کے مقامی لیڈر ہمیں ہمیشہ بتاتے رہتے تھے کہ بلوچوں کی پسماندگی سرداروں کی دین ہے ـ شعور کی دنیا میں قدم رکھا تو سردار اختر مینگل سے غائبانہ تعارف ہوا ـ میرے علاقے میں براھوی بولنے والے بلوچوں کی اکثریت ہے ـ براھوی چوک کے اردگرد رہنے والے براھوی نوجوان ہمہ وقت سردار اختر مینگل کے گن گاتے تھے ـ منگھوپیر کا گرم چشمہ، ہمارا فیملی پکنک پوائنٹ تھا، وہاں کے مینگل اکثریتی علاقوں میں سردار کی تصویریں لگی ہوتی تھیں ـ

پھر نواب اکبر بگٹی سے شناسائی ہوئی ـ ہمیں بتایا گیا؛ مغرور ہیں، ابوجہل کو آئیڈیل مانتے ہیں، عام بلوچ کو انسان نہیں سمجھتے ـ ہم نے مان لیا ـ

جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلوچ تحریک نے سر اٹھایا ۔تین سردار بدی کی علامت بن کر سامنے آئے ۔تیسرے سردار؛ خیر بخش مری سے یہ میرا اولین مکمل تعارف تھا ـ وقت گزرتا گیا ـ ایک دن ہم چند دوستوں نے کراچی کے علاقے ڈیفنس میں واقع خیابانِ سحر جانے کا فیصلہ کیا ـ خیابانِ سحر جو تیسرے سردار ؛ خیر بخش مری کا مسکن تھا ۔

ہم نے کبھی کسی سردار کو قریب سے نہیں دیکھا تھا ـ صرف سنا تھا ـ کسی سردار کو دیکھنا میرے لیے دلچسپ تھا ـ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں کسی آثارِ قدیمہ کو دیکھنے جا رہا ہوں ۔

گیٹ پر ایک باریش مسلح شخص کھڑا تھا ـ ہم نے سردار سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ـ اس نے ہمیں لان میں رکھی کرسیوں پر بٹھایا ـ کرسیاں کم تھیں، لان میں کھڑے ایک اور شخص نے اندر سے مزید کرسیاں لاکر ڈال دیں۔ چند منٹ بعد ایک بھاری بھرکم سرخ و سفید شخص اندرونی دروازے پر نمودار ہوئے ـ ہم دیکھتے ہی پہچان گئے ۔ وہ سردار خیر بخش مری تھے ۔سردار کو دیکھ کر میرے بدن میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی ۔

میں زندگی میں پہلی دفعہ کسی مری بلوچ سے ملنے والا تھا ـ یادش بخیر غالباً 1999 کو ہم چند دوست کوئٹہ گئے اور وہاں مری لیب کا چکر لگایا تاکہ ڈاکٹر شاہ محمد مری سے مل سکیں لیکن وہ لیب میں نہیں تھے ـ یوں ایک مری بلوچ سے ملنے کی خواہش ادھوری رہ گئی ـ میرے ذہن میں مری بلوچ کا تصور بھی عجیب تھا ـ لمبی سی داڑھی، سر پر پگڑی، سرخ آنکھیں، کرخت لب و لہجہ اور ہر وقت مرنے مارنے پر تیار۔ سردار خیر بخش مری کے برعکس حلیے کو دیکھ کر میں تھوڑا سا پریشان ہوگیا ۔

سردار ہمارے پاس آئے ـ ہم احتراماً کھڑے ہوگئے ـ انہوں نے مسکرا کر بیٹھنے کا اشارہ کیا ـ روایتی بلوچی احوال پرسی ہوئی ـ مجھے ایک دفعہ پھر شدید حیرت ہوئی جب انہوں نے کوہِ سلیمان کے بلوچی لہجے کی بجائے مکرانی بلوچی میں بات چیت شروع کی ـ میں محویت سے ان کا چہرہ تکتا رہا ـ۔بڑا سا چہرہ، اس پر سرد اور گہری آنکھیں، سر پر بلوچی ٹوپی ـ کسی سردار کو اتنے قریب دیکھنے کا تجربہ میرے لیے سرور آگیں تھا ـ سردار ۔۔۔جو ظالم اور وحشی ہوتے ہیں! ۔

ہم نے ہمیشہ یہی سنا تھا کہ خیر بخش مری ایک کم گو شخصیت ہیں ۔ یہ اطلاع بھی غلط ثابت ہوئی ۔انہوں نے پہلے تو ہم سے سنا ۔لیاری کی باتیں، ہماری دلچسپیاں، بلوچ سیاست اور جدوجہد پر ہمارا نکتہِ نظر ـ پھر وہ خود بولنے لگے ۔نرم لہجے میں، عاجزانہ انداز لیے، بے تکان بولتے رہے ـ بولتے بولتے رک جاتے، ہماری طرف گہری نگاہوں سے دیکھتے، کچھ سوچتے اور پھر بولنے لگتے ـ مجھے یقین تھا سردار گرجتے ہوں گے، امریش پوری کے انداز میں برستے ہوں گے مگر میرا یقین ٹوٹتا جارہا تھا ـ سردار نرمی سے، اپنائیت سے، عاجزی سے الفاظ جوڑ رہے تھے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم سرداروں کے بچوں سے زیادہ عام بلوچ رہنماؤں کو اہمیت دیں ۔ ان کو آئیڈیالائز کریں ۔وہ غلام محمد بلوچ کی تعریف کرنے لگے ۔اللہ نذر بلوچ سے امید باندھنے لگے ۔پاکستانی فوج کے ذکر پر ان کا رویہ سخت ہوگیا ـ انہوں نے بنا کسی لگی لپٹی کے فوج سے نفرت کا اظہار کیا ـ۔عام بلوچ کے مسائل کی بات آئی تو وہ نرم پڑگئے ـ انہوں نے سنگل پارٹی کے تصور کو ہوا میں اڑاتے موقف اپنایا کہ سنگل فکر کی ضرورت ہے، سنگل پارٹی کی بات بکواس ہے۔ان کے مطابق پاکستانی ریاست آپ کو پرامن سیاست نہیں کرنے دے گی ۔وہ پرامید تھے کہ آخری فتح بلوچ کی ہوگی ۔

ہم سنتے رہے ۔خاموشی سے، بنا کچھ بولے ۔ہوا میں خنکی بڑھ چکی تھی، شام کے سائے گہرے ہوچکے تھے ۔ وہ بولتے چلے جارہے تھے ۔ وہ بار بار دہراتے رہے کہ آپ لوگ پڑھے لکھے ہو، مجھ سے زیادہ جانتے ہو، میں ایک دیہاتی بلوچ ہوں؛ ایسا کہنے کے بعد وہ اپنا خیال ظاہر کرتے ۔اپنے خیال کو وہ دلائل سے مسلح کرکے بیان کرتے ـ چین، امریکہ اور بھارت کی ریاستی پالیسیوں کا ذکر بھی آیا ۔

مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے ۔ سرداروں کے متعلق ، مری بلوچوں کے متعلق میرے ذہن میں جو خاکہ تھا وہ غلط ثابت ہورہا تھا ۔ہاں ایک چیز جو مجھے بری طرح کھٹک رہی تھی وہ یہ تھی کہ سردار نے ہمیں کھانے کا نہیں پوچھا۔ کھانا دور چائے کا بھی نہ پوچھا ـ بس ایک شخص نے ہمیں پانی پلایا ۔

کافی وقت گزر گیا ـ ہم نے اجازت چاہی ۔سردار نے مروتاً بھی رکنے کا نہ کہا ۔بس اتنا ہی کہا کہ تم لوگ غلام ہو، غریب ہو ، یہ سب سے بڑی حقیقت ہے اور اسی حقیقت کو تسلیم کرکے دنیا کو ، خود کو سمجھنے اور بدلنے کی کوشش کرو ـ

ہم سردار کے گھر سے نکلے ـ میں لیاری تک سوچتا رہا سردار تو ۔۔۔ظالم اور وحشی ہوتے ہیں۔

Comments are closed.