پاکستان میں موجود مسلح طالبان جہاد کے نام پر چندہ اکٹھا کر رہے ہیں


رحمان بونیری۔ وائس آف امریکہ پشتو سروس

زیاده دور نہیں اسلام آباد سے 86  میل دور شمال میں خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں اب بھی  غیر قانونی شدت پسند افغان جہاد کے نام پر  چندہ مانگتے ہیں اور انکار کرنے والوں کو قتل کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں،شدت پسند زیادہ تر یہ چندے افغان جہاد کے نام پر  افغان سرحد سے ملحقہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان صوبوں میں مانگتے ہیں۔

یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہیں جب دہشت گردوں کی مالی معاونت پر  نظر رکھنے والے عالمی ادارے (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے ، جبکہ بظاہر پاکستانی حکام دعوی کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف حکومت نے سخت اقدامات کئے ہیں اور اس کے لئے سخت قوانین بنائے گئے ہیں ۔

چوبیس جنوری کو ضلع مردان کے رستم روڈ پر موجود گاؤں بھائی خان کی السعودی مسجد میں جب لوگوں نے نماز جمعہ ادا کیا تو ایک فرد نے خود کو امارت اسلامی افغانستان  کا رکن بتاتے ہوئے اعلان کیا کہ افغانستان میں جاری جہاد کیلئے چندہ دے دیں ۔اسی دن اس گاؤں کے ایک استاد اور ادیب و شاعر توقیر  ابشار نے اپنی فیس بک اکاونٹ پر پوسٹ میں لکھا کہ آج امارت اسلامی کے ایک طالب نے ان کے گاؤں مسجد میں  جہاد کیلئے چندہ مانگا۔

توقیر ابشار نے لکھا تھا :۔

میں نے افغانستان میں اور پشتونوں پر مسلط کردہ جہاد اور فساد کی حقیقت ان پر واضح کر دی اور گھر چلا آیا

دوسرے ذرائع سے تصدیق کے بعد  وی او اے ڈیوہ نے محترم توقیر ابشار سے ٹیلی فونک رابطہ کیا، ابشار نے کہا  جب میں نے یہ اعلان سنا تو میں خاموش نہ رہ سکا ، اور  طالبان کو اس چندے سے منع کیا اور کہا کہ یہ چندہ جب آپ  پشتونوں سے اکھٹا کرتے ہو تو اس سے پشتون ہی متاثر ہوتے ہیں ، اپ لوگ افغانستان میں جہاد اور کافروں کا نام استعمال کر کے پشتونوں کو قتل کرتے ہو۔

دوسری طرف حکومت پاکستان کا موقف ہے کہ شدت پسندوں کی مالی معاونت کے تمام راستوں کو بند کیا گیا ہے۔ جبکہ شدت پسندوں کے مالی ذرائع کے روک تھام کا عالمی ادارہ ( ایف۔اے۔ ٹی۔ ایف) ابھی بھی پاکستان کے اقدامات سے مطمئن  نہیں ۔

پاکستان کا نام اس وقت غیر قانونی رقم پر نظر رکھنے والے ادارے ( ایف۔اے۔ ٹی۔ ایف)  کے گرے لسٹ میں ہیں، اس مد میں  فروری میں ہونے والے پیرس  کانفرنس میں ( ایف ۔اے۔ ٹی۔ ایف) پاکستان کے اقدامات کا جائزہ لے ر ہا ہے، جیسا کہ آئی ایم ایف نے کہا ہے اگر پاکستان نے ( ایف ۔اے۔ ٹی۔ ایف) کو مطمئن نہیں کیا تو گرے لسٹ کی جگہ پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہوجائے گا، تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو پاکستان مزید سخت معاشی بحران  میں پهنس جائیگا۔

پاکستان حکام کے مطابق  فیصلہ کیا گیا ہے کہ ( ایف۔اے۔ ٹی۔ ایف) کی شرائط پوری کرنے کیلئے کچھ قوانین میں تبدیلی لائیں گے۔  پاکستان کا انگریزی اخبار ڈان سرکاری ذرائع کے توسط سے لکھتا ہے کہ رواں سال کے مہینے جون تک پاکستان دہشت گرد تنظیموں کو سزا کے ساتھ ساتھ دوسرے قوانین میں بھی عالمی معیار کے مطابق تبدیلی لائیں گے۔

اس مد  میں پاکستان نے حال ہی میں گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے امریکہ سے مدد کی درخواست بهی کی ہے، لیکن جنوری کے مہینے میں پاکستانی سفر کے دوران امریکی وزیر  برائے خارجہ امور جنوبی ایشیا  ایلس ویلز نے کہا تھا :۔ پاکستان دہشت گردوں کی مالی معاونت اور غیر قانونی رقوم کی ترسیل اور روک تھام پر  عالمی ادارہ ( ایفـ ۔اے۔ ٹی۔ ایف) اور عالمی برادری کے ساتھ ہونے والے وعدے پورے کرے”۔

ایلس ویلز نے وعده کیا تھا کہ امریکہ مدد کیلئے تیار ہے لیکن پاکستان اپنے ملک کے اندر تمام شدت پسندوں کے خلاف بلا امتیاز کاروائی کریں۔

رواں سال 31 جنوری کو امریکی کانگریس کے ایک خاص رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کئی دہائیوں سے افغانستان کے امور میں ایک متحرک مگر منفی کردار ادا کر رہا ہے :۔

پاکستان کے سکیورٹی ادارے افغان باغیوں کے تنظیموں خصوصی طور پر حقانی نیٹ ورک کے ساتھ مضبوط رابطہ رکھے ہوئے ہیں جبکہ پاکستان نے ہمیشہ ان الزامات کو رد کیا ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ حکومت نے شدت پسندوں کے چندے اکھٹے کرنے پر نہ صرف پابندی لگائی ہے بلکہ ریاست نے گڈ اور بیڈ طالبان میں فرق کو ختم کیا ہے۔ لیکن عالمی میڈیا میں ایسی خبریں آتی رہتی ہے کہ پاکستان اب بھی گڈ بیڈ طالبان کے پالیسی پر قائم ہیں۔

ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ فروری 2020 تک اپنا پلان مکمل کریں وگرنہ ( ایف ۔اے۔ ٹی۔ ایف) اقدامات کرے گی۔

پاکستان نے 2018 میں چیرٹیز ایکٹ کے نام سے ایک قانون بھی بنایا ہےِ۔ خیبر پختونخوا حکومت کے وزیر برائے اطلاعات و نشریات شوکت یوسفزی نے وی او ای ڈیوہ کو اپنے ایک انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ چیرٹی کمیشن دہشت گردی کے مالی ذرائع کے روک تھام کیلئے عالمی ادارے ( ایفـ ۔اے۔ ٹی۔ ایف) کے پاکستان پر دباؤ کے پیش نظر قائم کی گئی ہے تاکہ ریاست کے اندر دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام ممکن بنائے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ چیرٹیز ایکٹ بنانے کے بعد دہشت گردوں کی مالی معاونت کے تمام ذرائع کی روک تھام ہوچکی ہے، لیکن  پاکستان کے کوئٹہ شہر میں انگریزی اخبار کے ساتھ کام کرنے والے ایک جرنلسٹ نے نام نہ بتانے کی شرط پر وائس آف امریکہ پشتو سروس کو بتایا کہ بڑی حد تک چندہ مہم کم ہوئی ہے لیکن ختم نہیں ہوئی۔

بلوچستان کے ضلع کوئٹہ کے کچلاغ تحصیل اور افغانستان کے کند هار سرحد پر  قلعہ عبداللہ اور چمن شہر  بشمول کئی دیگر  علاقوں میں اب بھی جمعے کے دن چندے اکھٹے کئے جاتے ہیں۔ رواں سال  10 جنوری کو کچلاغ کے ایک مسجد میں ہونے والے دھماکے میں 12 لوگ مارے گئے تھے ۔ رپورٹس کے مطابق مارے جانے والوں میں تین افغان طالبان شامل تھے۔  پچھلے سال 19 اگست کو بلوچستان کے چاغی میں ایک افغان عالم مولانا میرا جان کو مارا گیا تھا، یہ علاقہ افغانستان کے ضلع ہلمند کے بھرامچہ کے قریب ہے جو کہ طالبان کی منشیات کا سب سے بڑا مرکز مانا جاتا ہے۔  

اس وقوعے سے کچھ دن پہلے کچلاک کے عثمان بن عفان مسجد کے مولوی محمد اعظم کو مار دیا گیا تھا۔ اگست کے مہینے میں ہی کچلاک کے گاؤں قاسم کے ایک مدرسے میں دھماکے میں افغانستان طالبان کے کمانڈر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کے بھائی حافظ احمداللہ  ہلاک ہو گئے تھے۔ 2017 میں بلوچستان میں علاقہ ژوب کے جامع مسجد کے امام مولوی اللہ داد نے ایک اشتهار میں لوگوں سے اپیل کی تھی کہ افغان طالبان کے ساتھ مالی معاونت کریں۔

حال ہی میں خیبر  پختونخوا کے ضلع مہمند کے ذیلی علاقوں کے عینی شاہدین نے ڈیوہ کو بتایا تھا کہ جیش محمد نامی تنظیم  کے ارکان مسجدوں میں آزادانہ چندہ مانگتے ہیں اور جوانوں کو جہادی تربیت لینے کی دعوت دیتے ہیں، مگر نہ سکیورٹی فورسز اور نہ دوسرے ادارے دہشت گردی کے اس فروغ اور  سرگرمیوں کی روک تھام کرتے ہیں۔

 عالمی میڈیا کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے چندوں کے علاوہ فلاحی کاموں کے نام پر  چندوں کی بڑی  تنظیمیں پاکستان کے صوبے پنجاب اور سندھ میں سرگرم ہیں۔ رائیٹرز  کے ایک رپورٹ کے مطابق جماعت الدعوہ تنظیم پاکستان میں 300 مدرسے اور سکول چلاتے ہیں، یہ تنظیم کئی ہسپتال بھی چلا تی ہے اور تقریبا 500 آدمی بلا معاوضہ جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فاونڈیشن کے ساتھ کام کرتے ہیں اور کئی سو کارکن کو تنخواہ بھی دیتے ہیں۔

سال2018 میں جنوری کے مہینے میں پاکستانی اخباروں میں حکومتی اعلان کے ذریعے بتایا گیا تھا کہ دہشت گرد تنظیموں کو چندے نہ دیں، ان تنظیموں میں لشکر جھنگوی، جیش محمد، لشکر طیبہ، تحریک طالبان پاکستان، پیپلز امن کمیٹی، اہل سنت الجماعت ، بلوچستان یونائیٹڈ آرمی، جیش اسلام، داعش، جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فاونڈیشن کے بشمول 72 ان تنظیموں کے نام بتائے گئے تھے جن کی پاکستان میں سرگرمیوں پابندی ہیں یا ان کی سرگرمیاں مشکوک ہیں اور  ان پر نظر رکھی جاتی ہے۔لیکن رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ غیر قانونی تنظیمیں حکومتی پابندیوں کے باوجود اب بھی چندہ اکھٹے کرتے ہیں۔

توقیر ابشار کے مطابق جب اس نے امارت اسلامی کے طالبانوں کو چندہ سے منع کیا انکو جواب دیا گیا  کہ لوگوں کی اپنی مرضی ہے کہ وہ چندہ دیں یا نہ دیں۔

 وی او اے ڈیوہ کو گاؤں کے ایک فرد نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ لوگوں نے ان باتوں کے بعد  چندہ دے دیا۔ لیکن توقیر ابشار کی کہانی یہاں پر ختم نہیں ہوئی۔  اسی دن شام کو جب توقیر ابشار کا چھوٹا بھائی نعمان مسجد میں نماز ادا کرنے کے بعد گھر پہنچا تو اپنے باپ اکنیز خان کو بتایا کہ امام مسجد مولوی مجا ہد بہت غصہ میں اور ناراض تھا۔

توقیر ابشار نے ڈیوہ کو بتایا کہ مولوی مجاہد نے ان کے بھائی کے توسط سے معافی مانگنے کیلئے پیغام بجھوایا تھا۔ اس پیغام کے بعد  ان کے والد نے گاؤں کے دو تین بزرگوں کا جرگہ لے کر مولوی مجاہد کے گھر گئے۔ لیکن مولوی مجاہد نے  طالبان  کو راضی کرنے اور ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ ابشار کے بزرگ  راتوں رات طالبان کے پاس بھی جرگہ لے کر گئے۔ ابشار کے مطابق جب ان کے بزرگ طالبان سے ملاقات کر رہے تھے تو بھائی خان گاؤں کے مولوی مجاہد اور مولوی کامران اللہ بھی موجود تھے۔

 ابشار نے بتایا جب ان کے والد گھر واپس لوٹ گئے تو بہت زیادہ پریشان اور ڈرے ہوئے تھے انہوں نے دھمکا کر کہا تھا کہ ابشار معافی مانگے ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا۔

ابشار نے وی او اے ڈیوہ کو بتایا کہ اس نے اپنے باپ کو صاف انکار کیا کہ معافی نہیں مانگے گا۔ میں نے اس لئے انکار کیا کہ مجھے اپنی بات پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔

ابشار کے انکار پر اس کا باپ ناراض ہوگیا اور کہا جب تک معافی نہیں مانگوگے تو گھر نہیں آو گے۔

انہی دنوں میں یہ بات سوشل میڈیا پر  پھیل گئی اور بہت سے شاعروں و ادیبوں نے سوشل میڈیا پر ابشار کے حق میں لکھا۔ تین کتابوں کے خالق مشہور شاعر ممتاز اورکزی نے اپنی فیس بک پرلکھا کہ ابشار کی زندگی خطرے میں ہے اور مردان کی ضلعی حکومت اور معززین سے ابشار کی زندگی بچانے میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی ۔

ابشار  نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر ان باتوں کا طالبان نے مزید برا منایا اور رد عمل میں ایک خط میں لکھا کہ آپ نے طالبان کی بے حرمتی کی ہے۔ خط میں ابشار کو دھمکی دی گئی تهی کہ ایسی باتوں سے توبہ کرو اور معافی مانگو اور آئیندہ کیلئے ایسی باتیں سوشل میڈیا پر نہ لکھو ورنہ برا ہوگا ، اس خط کی ایک کاپی ڈیوہ کے پاس محفوظ ہے۔

جب اس مد میں وی او اے ڈیوہ نے مردان پولیس کے سپریٹنڈنٹ انعام جان کے ساتھ ٹیلی فونک رابطہ کیا اور انکی تصدیق مانگی تو انہوں نے اس سے بے خبری کا اظہار کیا۔ لیکن ایک رپورٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر  ڈیوہ کو بتایا کہ انعام جان نہ صرف اس بات سے باخبر تھے بلکہ ابشار سے ملاقات بھی کی تھی اور ان کو احتیاط کا مشورہ دیا تھا۔

انعام جان کے بعد ڈیوہ نے مردان کے ضلعی پولیس افیسر سجاد خان سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ، سجاد خان نے بتایا کہ وہ اس وقوعے سے باخبر ہے اور تفتیش جاری ہے مزید کچھ نہیں کہہ سکتا:۔سجاد نے کہا کہ ریاست میں غیر قانونی چندے پر پابندی ہے۔

ایک طرف پولیس انتظامیہ نے اس وقوعے کی تصدیق سے انکار کیا تو دوسری طرف ابشار نے ڈیوہ کو بتایا کہ اس معاملے میں پولیس نے ان کی طالبانوں سے صلح کرا دی۔

 ابشار کے مطابق پولیس کے ڈی ایس پی حسین علی نے ان کو فون کیا اور ان سے ملاقات کرنے کا کہا پھر پولیس ابشار کو اپنے ساتھ مسجد لے گئے اور لوکل طالبان کے ساتھ ملاقات کرا ئی۔  ابشار نے بتایا کہ وہ اس شرط پر  ایس ایچ او پرویز کے ساتھ مسجد گئے کہ معافی نہیں مانگے گا اور یہ کہ آئندہ کیلئے یہاں چند ے بھی نہیں مانگیں گے، ابشار کے مطابق اس وقت ایس ایچ او پرویز بھی موجود تھا۔

پاکستانی پولیس نے تو ابشار کا امارت اسلامی اور لوکل طالبانوں کے ساتھ صلح کرا لیا لیکن وہ اب بھی فکر مند ہے کیونکہ خطرہ اب بھی موجود ہے۔

 پیرس میں فروری کے مہینے میں ہونے والے کانفرنس میں پاکستان ( ایف اے ٹی ایف) کے گرے لسٹ سے نکل پائے گا یا بلیک لسٹ میں شامل ہوجائیگا؟ یہ بتانا قبل از وقت ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مردان کے رستم روڈ پر بھائی خان گاؤں کا شاعر و ادیب اور استاد توقیر ابشار تب سے اپنے اور اپنی خاندان کے بارے میں فکر مند ہے جب سے اس نے نہ ختم ہونے والے افغان جہادکیلئے چندہ مہم پر احتجاج کیا ہے ۔

اس تحریر کو نیا زمانہ کے لیے نوجوان لکھاری فطرت یوسفزئی نے پشتو سے ترجمہ کیا ہے

One Comment