عورت مارچ کی مخالفت گندے مائنڈ سیٹ کی علامت ہے

عورت مارچ پر پابندی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں دی گئی درخواست مسترد کر دی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ عورت مارچ کو کوئی نہیں روک سکتا۔

عورت مارچ کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست جوڈیشل ایکٹیوزم کونسل کے چیئرمین اظہر صدیق نے درج کرائی تھی۔ اس پٹیشن کے بارے اُن کا مؤقف یہ تھا کہ عورت مارچ کو ملک دشمن پارٹیوں کی جانب سے عوام میں انتشار پھیلانے کے مقصد سے مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔ دوسرے یہ کہ مارچ اسلامی اقدار کے منافی ہے اور معاشرے میں بے حیائی کو فروغ دینے کا سبب بن رہا ہے۔

اس طرح کے اعتراضات  اسلامی حلقوں، خاص طور سے جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے بھی اُٹھائے گئے اور اس سال یعنی اگلے ماہ آٹھ مارچ کو اس مارچ کے انعقاد کو روکنے اور اس پر پابندی عائد کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔  عورت مارچ کے مخالفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ گذشتہ برس اس مارچ میں خواتین نے قابل اعتراض پلے کارڈز اٹھائے تھے جو بے حیائی کے مترادف تھے۔

27 فروری کو لاہور ہائی کورٹ میں اظہر صدیق کی جانب سے درج کرائی گئی پیٹیشن کی سماعت کے دوران وہاں ڈائریکٹر ایف آئی اے عبدالرب اور ڈی آئی جی آپریشنز عدالت میں موجود تھے۔ دوسری جانب درخواست کی مخالفت میں انسانی حقوق کے لیے عشروں سے جدوجہد کرنے والی معروف ایڈوکیٹ حنا جیلانی اور سائبر کرائم کے انسداد کے لیے کام کرنے والی انٹرنیٹ ایکسپرٹ نگہت داد لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوئیں۔ اس موقع پر حنا جیلانی نے کہا،اس ریلی کو متنازعہ بنانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ ہماری بچیاں اپنی اقدار کو بخوبی جانتی ہیں۔ یہ خواتین اس وقت اس ملک کا اثاثہ ہیں۔ انہیں آزادیء رائے کا حق حاصل ہے‘‘۔

واضح رہے کہ درخوست گزار اظہر صدیق نے عورت مارچ کی تشہیراور سوشل میڈیا پر اس کے بارے میں شائع ہونے والے مواد پر اعتراضات کرتے ہوئے اس کے خلاف درخواست دی تھی۔ اس بارے میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ریماکس میں کہا کہ سوشل میڈیا پر غیر ذمہ دار بیانات نہیں ہونے چاہیے۔ چیف جسٹس نے آزادی اظہار کے بارے میں کہا کہ اس  پر ایسے پابندی نہیں لگ سکتی۔ عدالت صرف سرکاری اداروں کا موقف جاننا چاہتی ہے۔

سول سوسائٹی اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم  حنا جیلانی نے عدالت میں اس امر پر اعتراض کیا کہ درخواست گزار کا عورت مارچ سے کیا تعلق ہے اور وہ اس کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا پر پابندی کیوں چاہتا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ عورت مارچ خواتین کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ اس سال اس کا انعقاد اتوار کے روز ہو رہا ہے، جس سے کاروبار متاثر ہونے کا خدشہ بھی نہیں۔

حنا جیلانی کا کہنا تھا، یہ اشتہار اور سوشل میڈیا کا معاملہ نہیں بلکہ یہ وہ گندی ذہنیت ہے جس کی وجہ سے یہ ہر چیز میں عُریانیت دیکھتے ہیں۔  ہماری مختلف نسلیں اس ریلی میں حصہ لیتی ہیں۔ ہمیں تہذیب کا زیادہ پتا ہے۔ ہم اپنے ماں باپ سے سیکھ کر آئے ہیں، ہم اپنی سوشل ویلیوز ان پیٹیشنرز سے سیکھنے نہیں آئے‘‘۔

اُدھر عورت مارچ کی تیاریوں میں مصروف نیشنل پبلک گروپ کی سرکردہ خواتین نے بُدھ کو کراچی میں سابق سینیٹر، سفارتکار اور انسانی، خاص طور سے خواتین کے حقوق کی سرکردہ کارکن شیری رحمان سے ملاقات کی۔ اس موقع پر ان خواتین نے اس سال عورت مارچ کے انعقاد کو بھرپور طریقے سے ممکن بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ دریں اثناء پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو نے بھی عورت مارچ کے انعقاد کی بھرپور حمایت کا اظہار کرتے ہوئے سندھ اور پورے پاکستان میں اس کے لیے موثر اقدامات کا یقین دلایا ہے۔

DW

Comments are closed.