پریشان بھگوان

کوی شنکر

کل رات موبائل پر ایک کال آئی۔۔۔ کوئی نمبر نہیں دکھ رہا تھا۔۔۔ ڈر سا گیا۔۔’’ کس کی کال ہے، کال اٹینڈ کروں یا نہ کروں۔ کیا کرنا چاہئے مجھے میں اس سوچ میں گم تھا اور موبائل پر بیل بجے جارہی تھی۔۔۔ کال کٹ گئی ، میں نے ٹھنڈی سانس لی۔ ابھی سوچ کا تانتا ٹوٹا نہیں تھا کہ دوبارہ بیل بجنا شروع ہوگئی۔۔ موبائل دیکھا تو نمبر نہیں تھا ۔۔۔۔ سمجھ گیا کہ دوبارہ وہیں سے کال آئی ہے۔۔۔

رات کی خنکی کے باوجود ماتھے پر پسینہ آگیا۔۔۔ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔۔ ڈرتے ڈرتے کال اٹینڈ کی۔۔۔ اور موبائیل فون کو کان سے لگایا۔۔۔ ’’ تم منو ہو! ‘‘ میں نے آہستگی سے کہا ’’ ج ج جی ہاں ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کون ہیں ؟‘‘ ’’ میں بھگوان ہوں ۔۔‘‘ ’’ بھگوان ۔۔۔‘‘ میں نے حیرانگی سے پوچھا۔۔ اور کال کٹ کردی۔۔

کال کٹ گئی لیکن میری پریشانی ختم نہ ہوئی ۔ میں سوچ میں پڑ گیا۔۔’’ بغیر نمبر کال پر بات کرنے والا بھگوان کیسے ہو سکتا ہے۔۔‘‘ میں خوفزدہ کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔اور ہاتھ میں پکڑے موبائل کو میز پر رکھ دیا۔۔ موبائیل فون پھر بجنے لگا۔۔ دیکھا تو وہی کال تھی۔ ہمت کرکے دوبارہ کال اٹیند کی۔۔ ’’ تم ڈرو نہیں۔۔۔۔ تم جو سوچ رہے ہو میں وہ نہیں ہوں۔۔۔ میں بھگوان ہی ہوں۔۔‘‘ میں چپ چاپ اس کی باتیں سننے لگا۔۔ ’’ مجھ سے کوئی کام ہے ۔۔۔‘‘ میں نے کہا ’’ ہاں کام ہے۔۔۔ تمہاری مدد چاہئے ‘‘ بھگوان نے کہا۔ ’’ کونسا کام۔۔۔۔ میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں۔‘‘۔

میرے پوچھنے پر وہ کہنے لگے۔ ’’ میں تم سے ملنا چاہتا ہوں ؟‘‘ ’’ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔ ٹھیک ہے جب چاہیں مل لیں، لیکن آپ سچ میں خلائی مخلوق تو نہیں ہیں نا !‘‘ ’’ میں بھگوان ہی ہوں، دنیا میں کورونا وائرس نے مہاماری پھیلائی ہوئی ہے۔۔۔ اس لئے تم سے ملنا چاہتا ہوں، کہ اسے کیسے ختم کیا جاسکے۔‘‘ ’’ کورونا کو ختم کرنا ہے، تو میں اس میں کیا کر سکتا ہوں، نہ میں ڈاکٹر، نہ حکمران اور نہ ہی کوئی این جی او میں کام کرتا ہوں، میں کیسے ختم کر سکتا ہوں ؟؟‘‘ ’’ تم ملوگے تو سب سمجھ جاؤ گے۔۔۔ اچھا ہم کچھ دیر میں ملتے ہیں۔۔۔!‘‘یہ کہہ کر بھگوان نے کال کاٹ دی۔

کال ختم ہوتے ہی میری جان میں جان آئی۔۔۔ مجھے پوری گفتگو پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔۔ لگا کہ جیسے کوئی خواب دیکھا ہے۔۔ میں ان ہی خیالوں میں تھاکہ فلیٹ کے دروازے کی گھنٹی بجی۔ دروازہ کھولا، وہاں پر باریش بزرگ کھڑے تھے۔۔ میرے پوچھنے سے پہلے ہی وہ گویا ہوئے۔ ’’ میں بھگوان ہوں۔۔۔ تم باہر آؤ ہم باہر چلتے ہیں۔۔۔‘‘ میں حیرانگی سے ان کو دیکھتے ہوئے باہر آگیا اور ان کے ساتھ چلنے لگا۔۔۔ رات کا وقت تھا۔۔ کورونا کی وجہ سے سڑک پر سناٹا تھا۔۔ گھپ اندھیرے میں ہم واک کر رہے تھے۔۔۔

ہم چلتے چلتے قریب میں واقع ایک پارک میں پہنچے۔۔ اس دوران بھگوان خاموش رہے۔۔ نہ وہ کچھ بولے اور نہ ہی میں کچھ بولا۔۔ ’’ میں یروشلم سے آرہا ہوں‘‘بھگوان بولے۔۔ ان کے اچانک بولنے پر میں چونک گیا۔ ’’ اچھا وہاں کیا کرنے گئے تھے۔ ۔ ۔۔؟؟‘‘ میں نے سوال کیا ’’ ہم سب وہاں جمع ہوئے تھے۔۔ کورونا کس نے پھیلایا اس کا پتہ لگا سکیں۔‘‘ ’’ ہم سب مطلب ۔۔!‘‘ میں نے پوچھا ’’ سارے بھگوان اور خدا۔۔۔۔‘‘ بھگوان نے جواب دیا ’’ سب بھگوان اور خداؤں کو کورونا کا پتہ ہی نہیں ہے۔۔ یہ کیسے اور کس نے شروع کیا اور لوگ مرے جا رہے ہیں۔۔‘‘ ’’ تو آپ لوگوں کے مرنے کی وجہ سے پریشان ہیں ؟؟‘‘ میں نے کہا۔

بھگوان نے مجھے دیکھے بغیر کہا ’’ نہیں للو۔۔۔۔ ہم سب اس لئے پریشان ہیں کہ لوگوں نے مندروں، گرجوں، مسجدوں میں آنا چھوڑ دیا ہے۔۔۔ ایسا لگتا ہے ہمارا خوف ہی نہیں رہا ان کو ‘‘ بھگوان بغیر رکے اپنی بات کہہ گئے۔

’’ اگر آپ اس بیماری کو ختم نہیں کر سکتے تو پھر بھگوان اور خدا کس بات کے ہو ؟‘‘ میری بات انہیں ناگوار گذری ۔۔’’ کہنےلگے ’’ ہمیں پہلے شبہ ہوا کہ کسی نہ کسی خدا کی دوسرے خداؤں کے خلاف سازش ہے۔ ۔۔ ہم نے ایک مشترکہ اجلاس میں اس پر بات کی۔۔ خوب گڑھے مردے اکھاڑے۔۔۔ بحث و تکرار کے بعد سب اس بات پر متفق ہوئے کہ یہ ہم میں سے کسی کام نہیں ہے۔۔۔ لیکن اس بیماری کے ڈر سے لوگوں نے ہم سے امید رکھنے کے بجائے اپنے عبادت گاہوں میں آنا ہی چھوڑ دیا۔۔ موت تو موت ہے۔۔ سب نے ایک دن مرنا ہے ۔۔ لیکن انسان نے ہماری طرف آنا کیسے چھوڑ دیا۔۔ یہ ہم برداشت نہیں کر سکتے۔

اپنی بات مکمل کرکے وہ چپ ہوگئے۔۔ ’’ تو پھر آپ کرنا کیا چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔؟؟‘‘۔

’’ چونکہ میں سب سے سینئر ہوں اس لئے مسئلے کو حل کرنے کی ذمہ داری مجھے دی گئی۔۔۔‘‘ وہ کچھ دیر رکے اور پھر کہنے لگے ’’ مجھے سائنسدانوں سے ملواؤ ۔۔۔ تم امریکہ جا چکے ہو، تمہارے وہاں دوست بھی ہیں۔۔۔ سائنسدان جلدی کورونا کی ویکیسن ایجاد کریں تاکہ لوگ اس کے خوف سے نکلیں اور پھر سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے۔‘‘ ’’ اس سے کیا ہوگا۔۔‘‘ میں نے کہا ’’ وہ تم چھوڑ دو بس تم سائنسدانوں سے میرا رابطہ کرواؤ۔‘‘۔

’’ اچھا اب سمجھا،آپ کو تالےلگنے کا ڈر ہے ۔۔ اس لئے میرے پاس آئے ہیں۔۔ آپ کیسے بھگوان ہو، دعویٰ کرتے ہو کہ سب کچھ آپ نے بنایا، آپ کچھ بھی کر سکتے ہو۔۔۔ آپ ہی کہتے ہو کہ ہم ہی بیماریاں دیتے ہیں اور پھر ٹھیک بھی کرتے ہیں لیکن یہ بیماری آپ کے کہے میں نہیں ہے۔۔۔۔۔ واہ رے بھگوان واہ۔۔۔ کورونا نے آپ کی بھگوان گیری کو ہی داؤ پر لگا دیا ہے۔۔‘‘ میری باتوں پر وہ مجھے گھورتے رہے ۔۔ اور میں انہیں وہاں چھوڑ کر گھر چلا آیا۔۔۔

One Comment