ڈاکٹر مبشر حسن۔تصویر کا دوسرارخ


ڈاکٹر مبشر حسن 99سال کی عمر میں لاہور میں وفات پاگئے۔

مبشر حسن 22 جنوری 1922 کو پانی پت میں پیدا ہوئے تھے۔ مولانا حالی کے خاندان سے تعلق تھا۔ سول انجنئیرنگ میں گریجویشن اور ماسٹرز ڈگری حاصل کرنے کے بعد آئیووا سٹیٹ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔ جس کے بعد لاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی میں سول انجینئرنگ کے استاد رہے۔ ہائیڈرالک انجنئیرنگ ان کا خصوصی شعبہ تھا، ڈاکٹریٹ کی تحقیق اسی پر تھی۔1967 میں سیاسی زندگی کا آغاز ایک سیاسی منشور بعنوان عوام کو متحد کرنے کا اعلامیہ “ شائع کرکے کیا۔ ان دنوں وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں انجنئیرنگ فزکس پر لیکچر دے رہے تھے ۔

بھٹو کی پہلی کابینہ میں بحیثیت وزیر خزانہ انہوں نے بجٹ میں تعلیم اور صحت کے لیے ریکارڈ رقوم مختص کیں۔ 1974 میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے امور کے مشیر مقرر ہوئے۔ پی این اے کی تحریک کے دوران پارٹی سے استعفیٰ دے دیا اور 1984 میں انجینئرنگ یونیورسٹی، لاہور میں پھر استاد کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں ۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں پاکستان پیپلز پارٹی (مرتضی بھٹو گروپ) سے وابستہ ہوئے ۔

ڈاکٹر مبشر حسن طویل عرصہ ایک رسالہ دوست نکالتے رہے،اردو، انگریزی اخبارات میں لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

ڈاکٹر مبشر حسن کے انتقال پر بہت سے دوست انہیں ذوالفقار علی بھٹو کا دوست لکھ رہے ہیں اور جمہوریت کی جدوجہد کا چیمپئن اور سوشلسٹ نظریات کا علمبردار ثابت کر رہے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں تھا وہ بھٹو کے دوست قطعاً نہیں تھے۔ انھوں نے مشکل وقت آنے پر بھٹو کو چھوڑ دیا۔ضیا الحق دور میں خاموش رہے۔

بے نظیر بھٹو نے جب پیپلز پارٹی کی قیادت شروع کی تو ایسٹیبلشمنٹ نے ان کے خلاف مختلف حربے استعمال کرنے شروع کر دیے۔ سندھ میں ان کو کمزور کرنے کے لیے غنویٰ بھٹو کی قیادت میں شہید بھٹو گروپ بنایا گیا اور ڈاکٹر مبشر حسن ان کے اتالیق بن گئے۔  جنرل مشرف دور میں پیپلز پارٹی اور دوسرے سیاسی کارکنوں کو این آر او دیا گیا تو وہ اس کے خلاف چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت میں چلے گئے تھے۔ڈاکٹر مبشر حسن نے مختلف کتابچے لکھے تھے جس میں بنیادی طور پر ایسٹیبشلمنٹ کے نقطہ نظر کو ہی پرموٹ کیا گیا تھا۔ آخری دور میں انھوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان لوگوں کے رابطے کے لیے پاک انڈیا پیپلز فورم کی بنیاد رکھی تھی ۔

پیپلز پارٹی کے ایک پرانے کارکن ضرار یوسف لکھتے ہیں کہ
ڈاکٹر مبشر حسن نے سیاست پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے شروع کی ۔ 30 نومبر 1967 کو پیپلز پارٹی کا تاسیسی اجلاس ان کی وسیع و عریض کوٹھی واقع گلبرگ پہ منعقد ہوا ۔ پارٹی کی تنظیم سازی کے سلسلے میں ان کو لاہور کا صدر تعینات کیا گیا ۔ مرکزی حکومت کی تشکیل کے بعد انہوں نے وزارت خزانہ اور پلاننگ ڈویلیپمنٹ کی وزارت پہ مورخہ 24 دسمبر 1971 سے 22۔ اکتوبر74 تک اس عہدے پہ فائز رھے ۔اکتوبر 1974 کو وزارتوں سے علیحدہ ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے جنرل سیکریٹری کا عہدہ سنبھالا ۔

ڈاکٹر مبشر حسن نے اپنی وزارت کے دوران صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے کے لئے بڑی جرات ایمانداری ،دیانتداری ، قابلیت، اور بہادری سے فرائض ادا کئے ۔وہ ایک نظریاتی رہنماء تھے اور پارٹی جنرل سیکریٹری کے طور پر ایک موزوں انتخاب بھی تھے مگر ان کا مزاج جلد برہم ہوجاتا تھا ۔ اس لئے کارکنان کے ساتھ قریبی تعلق قائم رکھنے میں بری طرح ناکام ہوئے ۔ ان کو جے اے رحیم کی پارٹی سے علیحدگی کے بعد جنرل سیکریٹری بنایا گیا تھا ۔ ڈاکٹر مبشر حسن کو ایوبی آمریت کے خلاف تحریک کے دوران ان کو شاہی قلعہ لاہور میں نظر بند رکھا گیا ۔

مارچ 1977 کو پی این اے کی تحریک کے بعد اچانک پارٹی کی جنرل سیکریٹری شپ سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تو ڈاکٹر مبشر حسن کو سمجھانے بجھانے کے لئے بھٹو مرحوم نے شیخ محمد رشید مرحوم کو ان کے پاس بھیجا ۔ شیخ رشید نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کی بہت منت سماجت کی کہ وہ استعفی نہ دیں ان کا مستعفی ہونا پی این اے کی تحریک کو جلا بخشے گا ۔

اسی سلسلے میں ایک دفعہ شیخ محمد رشید، ڈاکٹر مبشر صاحب کے پاس گئے تو ان کے پاس رفیع رضا صاحب بھی تشریف فرما تھے ۔ وہ 1971 کے بننے والی کابینہ میں بھٹو صاحب کے وزیر بھی رہ چکے تھے ۔ شیخ محمد رشیدجب ڈاکٹر مبشر حسن کو مستعفی نہ ھونے کیلئے قائل کرنے کی کوشش کر رھے تھے تو رفیع رضا صاحب نے مداخلت کرتےہوئے کہا اس حکومت میں ڈاکٹر صاحب کیسے گزارہ کر سکتے ہیں ۔ جہاں جاگیرداروں کی اکثریت ہے ۔ ڈاکٹر صاحب ان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے ۔

رفیع رضا صاحب نے شائد یہ الفاظ شیخ رشید کے جذبات ابھارنے کے لئے کہے تھے ۔ لیکن شیخ صاحب گویا ہوئے کہ ڈاکٹر صاحب وزارت اور بحیثیت سیکریٹری جنرل ساڑھے پانچ سال بھٹو صاحب کے ساتھ جاگیرداروں کے ھم نشین ر ہے ہیں تو پی این اے کی موومنٹ کے دوران ان کو کیوں یاد آیا کہ اب میں بھٹو صاحب کے ساتھ نہیں چل سکتا ۔

ڈاکٹر مبشر حسن صاحب نے ایک نیا موقف پیش کیا کہ میرا بھائی جو کہ مصر میں قیام پذیر ہے ، بیمار ہے میں اس کی عیادت کرنے مصر جانا چاھتا ہوں ۔ اس ساری گفتگو پر مبنی رپورٹ جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی خدمت میں پیش کی تو بھٹو صاحب نے کہا کہ مبشر چھٹی لے کر مصر چلا جائے ۔ مگر ڈاکٹر مبشر حسن نہ مانے اور مستعفی ہوگئے ۔ گو کہ وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے ان کا استعفی منظور نہ کیا اور وہ پانچ جولائی 1977 تک وزیراعظم کے معاون براے سائنس و ٹیکنالوجی رہے ۔

پیپلز پارٹی کے ایک اور دیرینہ کارکن اسلم گورداسپوری اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ
جب ڈاکٹر مبشر حسن پیپلزپارٹی لاہور کے صدر بن گئے تو پارٹی اور پارٹی کارکنوں کی ترجیحات میں تبدیلیاں آنا شروع ہوگئیں۔ بلاشبہ ڈاکٹر مبشربہت ذہین اور محنتی ہیں مگر ان تمام خوبیوں کے باوجود ایک غیر سیاسی شخصیت تھے۔ان کی ذہنی تربیت ایک بیوروکریٹک ماحول میں ہوئی تھی۔ اور وہ بیوروکریٹک ماحول بھی درس و تدریس کا تھا۔ ڈاکٹرصاحب بنیادی طور پر استاد تھے اور انجئینرنگ یونیورسٹی میں تعلیم دیتے تھے۔طلبا کی سعادت مندی رفتہ رفتہ استاد کو تھانیدار بنادیتی ہے۔

اکثر استاد اپنے ارد گرد موجود افراد کو اپنے سٹوڈنٹس سمجھنا شروع کردیتا ہے اور ان سے انکار سننے کا متحمل نہیں ہوتا۔بالخصوص ہمارے سماج میں استادوں کا رویہ بالعموم غیر جمہوری اور متشدد ہوتا ہے۔استاد اپنے سٹوڈنٹس کی اہمیت تسلیم کرنے اور ان کی حیثیت کو وقعت دینے کو تیار نہیں ہوتے۔لہذا یہی رویے لے کر ڈاکڑمبشر حسن پیپلزپارٹی میں وارد ہوئے تھے۔استادانہ رویے کے ساتھ ساتھ ایک رویہ جو ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا حصہ تھا وہ تھا ایک لمیٹڈ کمپنی چلانے کا رویہ اور سٹائل۔ڈاکٹرصاحب نے جب انجینئرنگ یونیورسٹی سے ملازمت چھوڑی یا انھیں انتظامیہ نے برخاست کردیا تو انھوں نے اپنی ایک لمیٹڈ کمپنی بنالی تھی جس میں انھوں نے بہت سے ملازم بھرتی کئے ہوئے تھے۔ڈاکٹر صاحب ایک سخت گیر قسم کے ایڈمنسٹریٹر تھے اور اپنی کمپنی کے ملازموں کو اپنی انگلیوں پر نچانے پر یقین رکھتے تھے۔

ہماری بد قسمتی کہ ڈاکٹر صاحب کہ یہ رویہ ان کی شخصیت اور عمل پر حاوی تھا۔لہذا جب ڈاکٹر صاحب پیپلزپارٹی لاہور کے صدر بنے تو ان کا کارکنوں کے ساتھ وہی رویہ تھا جو وہ اپنی کمپنی کے ملازموں سے روا رکھتے تھے۔ڈاکٹرصاحب نے اپنی ذہنی تربیت اور کاروباری پس منظر کی بدولت پارٹی کو بھی ایک لمیٹڈ کمپنی بنادیا تھا۔ٖڈاکٹر صاحب پارٹی ورکر صرف اسی کو تسلیم کرتے تھے جو ان کے نوکروں کی طرح ان کا تابعدار ہوتا تھا۔ دوسرا کوئی ورکر خواہ کتنا ہی نظریاتی طور پر پختہ اور سیاسی طور پر اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کیوں نہ کرتا ڈاکٹر صاحب کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک سیاسی ورکر ہونے کا ایک ہی پیمانہ تھا اوروہ تھا ان کی تابعداری اور خوشامد۔

ڈاکٹر صاحب سے جو اختلاف کی جرات کرتا ڈاکٹر صاحب اس کا وجود مٹادینے کی حدتک اس کے خلاف ہوجاتے تھے۔ وہ ذاتی مخالفت اور مخاصمت کے معاملے میں کسی کے علم و دانش کو تسلیم کرنے کو قطعاً تیار نہیں ہوتے تھے۔میرے نزدیک ڈاکٹر صاحب کی ایک اور بات حیران کن تھی۔ وہ خود کو تو سوشلسٹ اور کمیونسٹ خیال کرتے تھےپاکستان کے تمام معروف کمیونسٹوں کے ساتھ ان کی بے تکلفی تھی۔

فیض کو وہ اپنی لکھنوی انداز میں فیضی اور سبط حسن کو سبطے کہہ کر مخاطب کرتےتھے مگر پارٹی کے اندر وہ ہر سوشلسٹ کے وہ جانی دشمن ہوا کرتے تھے۔ وہ ہر سوشلسٹ ورکر کے ساتھ بیحد نفرت کیا کرتے تھے۔ شیخ رشید اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ان کی نفرت اور مخالفت کی وجہ ان کی سوشلزم سے وابستگی تھی۔ڈاکٹر مبشر کہا کرتے تھے کہ شیخ رشید پارٹی کے ورکروں کا دماغ خراب کرتا ہے اور پارٹی کے ماحول کو خراب کرتا ہے۔(ذوالفقار علی بھٹو کی داستان حیات از اسلم گوروداسپوری صفحات71-370 )۔

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
الیکشن کے بعد 28 مارچ 1977 کو بھٹو نے پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔ اسی دن پارٹی کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر مبشر حسن نے پارٹی چیرمین اور وزیراعظم کو ایک طویل خط لکھا تھا جس کے مندرجات انھوں نے پریس کو شایع کرنے کے لئے فراہم کئے تھے۔

ڈاکٹر مبشر حسن نے اپنے خط میں وزیر اعظم بھٹو کو وزارت عظمی سے مستعفی ہونے، تمام اسمبلیوں اور حکومتوں کو تحلیل کرنے اور نئے الیکشن کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔انھوں نے 21 صفحات پر مشتمل اپنے خط میں پارٹی اور جنرل سیکرٹری کے عہدے سے اپنا استعفی بھی ارسال کیا تھا۔
بھٹو نے 12 اپریل کو ان کے خط میں مندرج مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے ان کا استعفی منظور کرلیا تھا۔ یاد رہے ڈاکٹر مبشر نے اپنے خط میں جو مطالبات کئے تھے یہی مطالبات قومی اتحاد نے بھی پیش کئے تھے۔(حوالہ الیکشنز ان پاکستان، فیر اینڈ فری نیٹ ورک صفحہ 71-170 )۔

بشکریہ:لیاقت علی۔ ضرار یوسف ۔ اسلم ملک

Comments are closed.