پشتونوں کی دہلیز پر ایک نئی اور خوفناک جنگ کے منڈلاتے سائے

محمد زبیر

کیا پشتونوں کی روا یتی قیادت اور پی ٹی ایم کو اس آفت کا مکمل ادراک ہے اور کیا انکے پاس اس سے نبٹنے کیلیے حکمتِ عملی ہے؟

افغانستان میں ریاست پاکستان کی خونی پالیسی کو ایک تاریخی فتح ملی ہے۔ طالبان کو شکست دیے بغیر امریکہ بہادر نے طالبان کے ساتھ امن معاہدہ دستخط کیا جسکے تحت امریکہ صرف اس شرط پر افغانستان سے نکلنے کو تیار ہوا کہ طالبان کسی ایسے گروہ کو پناہ نہیں دینگے جو امریکہ پر حملے کرنے کے حامی ہو۔ مثلاً القائدہ اور داعش وغیرہ۔

اس معاہدے کے تحت امریکہ نے پاکستان پر طالبان کی حمایت کرنے یا کسی اور طرح سے افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنے کے حوالے سےکوئی قدغن نہیں لگائی۔ جس طرح ۱۹۸۹ میں افغانستان جنگ سے نکلتے وقت امریکہ نے پاکستانی جرنیلوں کو افغانستان میں کچھ بھی کرنے کی کھلی چھٹی دی تھی، وہی تاریخ ۲۰۲۰ میں دوبارہ دہرائی جارہی ہے۔ جس طرح اُسوقت افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوئی بالکل اُسی طرح اِسوقت بھی افغانستان میں اندرونی خانہ جنگی کی ابتداء ہوچکی ہے۔

جنرل حمید گل نے ایک بار کہا تھا کہ “جب آئی ایس آئی کی تاریخ لکھی جائے گی تو ایک جملہ یہ ہوگا کہ آئی ایس آئی نے امریکہ سے مل کر روس کو شکست دی اور پھر اسکے بعد دوسرا جملہ یہ ہوگا کہ آئی ایس آئی نے امریکہ سے مل کر امریکہ کو شکست دی”۔ حمید گل کا کہا سو فیصد درست ثابت ہوچکا ہے۔

پاکستانی افواج اور جاسوسی اداروں کو ایک بار پھر کھلی چھٹی مل چکی ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی مداخلت اور خون کو ہولی جاری رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان ریاستی سرپرستی میں دوبارہ منظم ہورہے ہیں۔ مردان، پشاور، چارسدہ اور خیبر پختونخواہ کے دیگر شہروں کی مسجدوں میں افغان طالبان کھلے عام چندے وصول کررہے ہیں۔

زید حامد جیسے دفاعی تجزیہ کار ٹی وی پر کھلے عام کابل میں حکومت کی تبدیلی کی بات کررہے ہیں اور طالبان کو اشرف غنی کے ساتھ وہی سلوک کرنے پر اکسایا جارہا ہے جو انہوں نے ڈاکٹر نجیب کیساتھ کیا۔ امریکہ اور طالبان امن معاہدے کے تحت یہ فیصلہ بھی ہوچکا ہے کہ بین الافغان مذاکرات کےبعد افغان حکومت بدلے گی اور نئی حکومت میں طالبان کی شراکت داری ہوگی۔ یہ واضح نہیں کہ طالبان کس بنیاد پر حکومت کا حصہ بنیں گے۔ طاقت اور تشدد کی بنیاد پر یا ووٹ کی بنیاد پر۔ جبکہ دوسری طرف موجودہ حکومت کو افغان عوام کی طرف سے دیا گیا انتخابی مینڈیٹ بھی ان سے چھین لیا جائے گا۔

پاکستان کے ریاستی اداروں کو اس بات کا اندازہ ہوچکا ہے کہ پی ٹی ایم کو جبر، زور اور تشدد سے نہیں دبایا جاسکتا اس لیے وہ اپنے پرانے طریقہ واردات کو اپنائیں گے۔ یعنی وہ دہشت گردوں کے ذریعے پشتونوں میں اٹھنے والی سیاسی اور سماجی تحریکوں کو کچلیں گے۔ جب 2003میں قبائلی علاقوں پر ریاستی سرپرستی میں طالبان کو مسلط کیا گیا اسوقت بھی ہزاروں کی تعداد میں ان تمام قبائلی پشتون مشران کو چن چن کر مارا گیا جو پاکستان کے طالبان پراجیکٹ کی رہ میں رکاوٹ تھے۔

المختصر گڈ طالبان کا سیکنڈ فیز شروع ہونے جارہا ہے جسکے تحت پاکستان کے ادارے افغانستان میں طالبان کے ذریعے قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھیں گے اور دوسری طرف اُنہی کے ذریعے پی ٹی ایم کو کچلیں گے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا پشتونوں کی روا یتی سیاسی قیادت اور پی ٹی ایم کو پشتونوں پر مسلط کی جانے والی جنگ کی تباہ کاریوں کا مکمل ادراک ہے اور کیا انکے پاس اس سے نبٹنے کے لیے حکمتِ عملی ہے؟

میرے ذاتی خیال میں سرِدست پشتون اشرافیہ، روایتی سیاسی قیادت اور پی ٹی ایم کی قیادت پشتونوں پر نازل ہونے والی اس نئی آفت سے نبٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اس وقت پی ٹی ایم ہی وہ واحد تحریک ہے جس نے بغیر کسی لگی لپٹی کے اور کھل کر فوج اور دہشت گردی کے درمیان تعلق پر بات کی ہے، صرف اور صرف پی ٹی ایم ہی پشتونوں پر مسلط کی گئی ماضی کی جنگوں کا حساب کتاب مانگ رہی ہے، اور فوج سے مستقبل میں اس قسم کی جنگوں سے ہمیشہ کیلیے کنارہ کشی کرنے کی ضمانت مانگ رہی ہے، اور پی ٹی ایم ہی وہ واحد تحریک ہے جو ریاستی سرپرستی میں طالبان کے دوبارہ منظم ہونے پر واویلا مچا رہی ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اس کے برعکس روایتی پشتون سیاسی اشرافیہ ڈھکے چھپے اور دبے الفاظ میں محض اس حد تک بات کررہی ہے افغانستان میں امن ہونا چاہیے کیونکہ وہ پاکستان کے امن کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اور یہ کہ افغانستان میں پاکستان کی مداخلت نہیں ہونی چاہئیے۔ کچھ قائدین کی سوئی خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت کی کارکردگی پر اٹکی ہوئی ہے۔ کچھ قائدین ایک سانس میں پی ٹی ایم کو فوج کا بغل بچہ کہتے ہیں اور دوسرے سانس میں اسے پاک فوج اور ملک دشمن قرار دیتے ہیں۔

کچھ سیاستدانوں کا سارا مسئلہ آئین کی حکمرانی اور فوج پر سویلین حکومت کی بالادستی تک محدود ہے۔ المختصر، پشتونوں پر جو بیتی، جو بیت رہی ہے اور جو بلا ان پر نازل ہونے جارہی ہے، یعنی پشتونوں کے اصل مسائل پر جس انداز میں کھل کر اور جرات کیساتھ بات ہونی چاہئیے تھی وہ نہیں ہورہی۔ شایدپشتونوں کی روایتی سیاسی قیادت پر ریاستی اداروں کا خوف سوار ہے یا مستقبل میں سیاسی طاقت میں شراکت داری کا لالچ۔

پی ٹی ایم نے پشتونوں کی روایتی سیاسی اشرافیہ کے مقابلے میں صحیح، صاف اور کھل کر بات کی ہے لیکن اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ پی ٹی ایم آنے والے چیلنجر کا مقابلہ کرنے کیلیے تیار ہے۔ پی ٹی ایم کی سب سے بڑی کمزوری تنظیم کا نہ ہونا ہے۔ پی ٹی ایم کے قائدین واٹس ایپ اور سکائپ گروپوں میں اور عوامی جلسوں میں اس بات کا بار بار اظہار کرچکے ہیں کہ انکی سب سے بڑی ناکامی پی ٹی ایم کی جدید خطوط پر تنظیم اور آئین سازی نہ کر سکنا، تحریک کے اغراض و مقاصد کو بیان نہ کرنا، اور ادارتی فیصلہ سازی اور تقسیمِ کار کا عمل وضع نہ کرناشامل ہیں۔ پی ٹی ایم کا آئین بنایا گیا، کور کمیٹی بنائی گئی اور پھر توڑ دی گئی۔

پھر ایک کوشش ہوئی، آئین بنا اور جمہوری انداز میں کور کمیٹی منتخب ہوئی اور نئے آئین کے ڈرافٹ پر دنیا بھر سے پی ٹی ایم کے حامیوں نے اپنی سفارشات بھیجیں۔ لیکن آئین اور تنظیم سازی پر اس بنیاد پر آگے کام نہ ہوا کہ پی ٹی ایم کے کچھ رہنماء پسِ زندان تھے۔ اور اسی طرح منتخب کور کمیٹی کو فیصلہ سازی کے عمل سے دودھ سے مکھی کی طرح نکال دیا گیا۔ اب جب کہ پی ٹی ایم کے تمام سرکردہ رہنماء آزاد ہیں تحریک کا اب بھی منظم نہ ہونا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ بڑے بڑے جلسے کرنا قدرے مشکل کام ہے لیکن ان کے مقابلے میں آئین اور تنظیم سازی کا کئی گنا زیادہ آسان اور اہم کام نہیں ہورہا۔

جب تک پی ٹی ایم ملکی اور بین الاقوامی سطح پر منظم نہیں ہوگی، اسکا آئین نہیں ہوگا جو تحریک کے اغراض و مقاصد کا تعین کرے، اور تقسیم کار اور ادارتی فیصلہ سازی کے عمل کو وجود میں لائے، اس وقت تک میری ذاتی رائے میں پی ٹی ایم ان چیلنچز کا مقابلہ نہیں کرسکتی جو پشتونوں کو درپیش ہیں یا ہونے جارہے ہیں۔

پس ایک طرف پی ٹی ایم کا فوراً سے پیشتر منظم ہونا بہت ضروری ہے تو دوسری طرف پاکستان میں موجود تمام روایتی سیاسی اشرافیہ اور پی ٹی ایم کا ایک صفحے پر آنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ منظور پاشتین کو گرفتار کرنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ انہوں نے پشتونوں کا لوئے جرگہ بلانے کی بات کی۔ پشتونوں کا جرگہ بلکہ بہت سے جرگے بلانا بہت ضروری ہوچکا ہے۔ پشتونوں کی روایتی سیاسی قیادت اور پی ٹی ایم کا مجموعی طور پر منظم ہونا بہت ضروری ہے۔ اور یہ سمجھنا بھی بہت ضروری ہے کہ ریاستی ادارے اپنی سر توڑ کوششیں کریں گی کہ پشتون منظم نہ ہونے پائیں۔

یہ بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ ریاستی اداروں کو “لر و بر یو افغان” کے نعرے سے سخت الرجی ہے۔ لَر و بر کا پتہ کاٹنا ان کی فہرست میں سرِ فہرست ہے۔ اب کے سٹریٹیجک ڈیپتھ کی خونی پالیسی کی جکہ اس نئی خونی پالیسی نے لے لی ہے۔ دونوں صورتوں میں پشتونوں کے خون کا بہنا ٹھہر چکا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ منظور پاشتین نے چارسدہ جلسے میں پشتونوں کی ایک آزاد ریاست قائم کرنے کی بات بھی کی ہے۔ اس نئی پالیسی کا اطلاق گڈ طالبان کے ہاتھوں کیا جائے گا اور انہی کے ذریعے پی ٹی ایم کو کچلا جائیگا۔ قبائلی علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ اور طالبان کا دوبارہ منظم ہونا اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ لیکن پشتون اشرافیہ اور روایتی سیاسی قیادت کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ منظم نہ ہوئے اور آنے والی آفتوں کے آگے اکٹھے ہوکر بند نہ باندھے تو خدانخواستہ پی ٹی ایم کے بعد انکا نمبر آنا ناگزیر ہے۔

Comments are closed.