لاہور جو خواب ہوا


تبصرہ: لیاقت علی ایڈووکیٹ

لاہور کا شمار برصغیر کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے، اس بارے کوئی دو آرا نہیں ہیں۔ اگر کچھ اختلاف ہے تو وہ اس بات پر ہے کہ لاہور کو کس نے اور کب بسایا اور اس کے نام کی وجہ تسمیہ کیا ہے۔ دنیا کے بڑے شہروں کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کو بسانے کے پس پشت مذہبی، تجارتی اور معاشی وجوہات رہی ہیں اور اس کو بسانے والا کوئی ایک شخص نہیں بلکہ قبائل اور برادریاں تھیں۔لاہور کا نام لاہو، لوہارو، لاوا یا کچھ اور تھا اس بابت بھی مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ لاہور کی ابتدائی تاریخ کی بابت مصدقہ معلومات بہت کم ہیں۔

لاہور پر مختلف ادوار میں غزنوی، غوری، مغل،ابدالی اور سکھ حکمران رہے لیکن سولہویں صدی کے اواخر اور اٹھارویں صدی کی ابتدا تک مغل دور اقتدار میں لاہور کو بہت زیادہ اہمیت رہی کیونکہ مغلوں نے کچھ سالوں تک اس کو اپنا دارالحکومت بنایا تھا۔

انیسویں صدی کے اوائل میں جب رنجیت سنگھ نے پنجاب پر اپنی حکومت قائم کی تو اس نے اپنی سرکار کو لاہور دربار کا نام دیا تھا۔رنجیت سنگھ کے دور اقتدار نے لاہور کو نئی شناخت دی اور لاہور نہ صرف ہندوستان بلکہ بین الاقوامی طور پر بہت زیادہ اہمیت اختیار کرگیا تھا۔

سکھ سلطنت کے انہدام کے بعد جب ایسٹ انڈیا کمپنی اور بعد ازاں تاج برطانیہ لاہور پر قابض ہوا تو لاہور کی تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا۔ اب لاہور برصغیر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی تحریکوں کا اہم مرکز بن گیا تھا۔کوئی سیاسی اور سماجی تحریک اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی تھی جب تک کہ لاہور اس تحریک کی تائید نہیں کرتا تھا۔برطانیہ سے مکمل آزادی کی قراردار ہو یا قیام پاکستان کی قرارداد دونوں ہی لاہور میں منظور ہوئی تھیں۔

برطانوی عہد کا لاہور متعدد مذاہب، متنوع ثقافتوں اور لسانی شناختوں کا مرقع تھا۔ خوبصورت مندر، عالی شان مساجد، گردوارے اور چرچ اس کی پہچان تھے۔ لاہور کے تعلیمی ادارے اور اس کے کشادہ اور روشن بازار اور باغات اس کو پورے برصغیر میں اپنی مثال آپ تھے۔

لاہور کی پہچان جہاں اس کی ماضی کی شاندار تاریخ ہے جس کے آثار و باقیات آج بھی ہم میں موجود ہیں اور دوسرے وہ اہل علم ہیں جنھوں نے لاہور کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا۔انھوں نے لاہور بارے اپنے تذکروں اور یادداشتوں میں جس انداز میں لاہور کی زندگی کے مختلف رنگوں کو بیان کیا ہے اس نے لاہور کو زندہ جاوید بنادیا ہے۔

برطانوی قبضے کے بعد لاہور بارے سب سے پہلی کتاب مولوی نور احمد چشتی نے 1868میں تحقیقات چشتی کے عنوان سے لکھی تھی۔ نوراحمد چشتی کی یہ کتاب لاہور بارے معلومات کا خزانہ ہے۔ لاہور بارے اس کے بعد جو دوسری کتاب لکھی گئی وہ رائے بہادر کنہیا لعل ہندی کی تاریخ لاہور تھی جو اپنے مواد اور زبان و بیان کے اعتبار سے آج بھی بہت مقبول ہے۔

اندرون شہر لاہور سے تعلق رکھنے والے سید محمد لطیف کی تاریخ لاہور، کرنل بھولا ناتھ وارث کی تاریخ شہر لہور اور منشی محمددین فوق کی مآ ثر لاہور،لاہور کی تاریخ پر بہت اہم کتابیں ہیں۔ ان کتابوں میں لاہور کی تاریخ، تاریخی عمارتوں، مذاہب، ثقافتوں اوراس کے وسنیکوں کی زندگی کے مختلف رنگوں کو بیان کیا گیا ہے۔

تقسیم ہند کے بعد لاہور سے بحالت مجبوری نقل مکانی کرنے والے ہندو، سکھ اور دیگر غیر مسلم لکھاریوں نے اپنی جنم بھومی لاہور سے زبردستی جدا کئے جانے کے غم اور اداسی کو اپنی یاداشتوں میں سمویا۔ان میں سوم آنند کی’کہاں گیا میرا شہر لاہور‘،گوپال متل کی’لاہورکا جو ذکر کیا‘، سنتوش کمار کی ’لاہور نامہ‘ ایسی کتابیں ہیں جن میں لاہور کا وہ رنگ نظر آتا ہے جو ہم اب ہمیشہ کے لئے کھو چکے ہیں اور یہ وہ لاہور تھا جو آج کے فرقہ ورانہ تنازعات اور بنیاد پرستی کی فضا میں لتھڑے ہوئے لاہور کے مقابلے میں ایک خواب لگتا ہے۔

سیر لاہور‘ پروفیسر گلاب سنگھ کی تحریر کردہ ہے۔ پروفیسر گلاب سنگھ جغرافیہ کے استاد تھے۔ یہ کتاب انھوں نے 1936 میں لکھی تھی جو سکول کے ابتدائی کلاسز کے طلبا کے لئے تھی۔ پروفیسر گلاب سنگھ نے طلبا کے ذہنی معیار اور صلاحیت کے پیش نظر رکھتے ہوئے لاہور کی نہایت آسان پیرائے میں لاہور کی سیر کروائی ہے۔

پروفیسر گلاب سنگھ نے لاہور کی تمام قابل ذکر عمارتوں۔۔ ٹاون ہال،عجائب گھر، اسمبلی ہال، چڑیا گھر، گورنر ہاوس کو متعارف کروایا ہے۔ لاہور کی تاریخی عمارتوں۔۔ مقبرہ جہانگیر، شالا مار باغ، سمادھ مہاراجہ رنجیت سنگھ،سماج گورو ارجن دیو جی، بادشاہی مسجد، اور شاہی قلعہ کا بیان بھی بہت دلچسپ ہے۔

گلاب سنگھ اندرون شہر، اس کے مختلف بازار وں، محلوں اور وہاں موجود مختلف عمارتوں اور ان کی تاریخ کو آسان اور سلیس زبان میں بیان کرتے ہیں۔لاہور کا موسم، لاہور کے اردگرد موجود نہریں اور ندی نالے، ضلع لاہور کی سیر بذریعہ ریل، لاہور کا موسم اور لاہور سے متعلق ہر تفصیل پروفیسر گلاب سنگھ کی اس کتاب میں موجود ہے۔

اس کتاب کو سید فیضان عباس نقوی نے مرتب کیا ہے٭٭

کتاب: سیر لاہور
مصنف: رائے صاحب منشی گلاب سنگھ
پبلشر: فکشن ہاوس لاہور۔68
مزنگ روڈ لاہور

Comments are closed.