مولوی اور ہمارے حکمران

لیاقت علی

پاکستان کے ہر حکمران نے کوئی نہ کوئی مولوی اپنے پہلو میں ضرور بٹھایا ہے۔ بانی پاکستان اپنے رہن سہن اور میل جول میں ماڈرن تھے لیکن اپنی سیاسی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انھوں نے مولانا شبیراحمد عثمانی کو اپنے پہلو میں جگہ دی ہوئی تھی اور مولانا نہایت تندھی سے جناح کے سیاسی بیانات کو مذہبی جامہ پہنایا کرتے تھے۔

وزیر اعظم لیاقت علی خان کی پشت پر تو یوپی اور بہار سے بہتر معاشی اور سیاسی مواقعوں کی تلاش میں پاکستان آنے والے مولویوں کی پوری فوج تھی جو پاکستان کو اورنگ زیب کے نظریات کے مطابق تشکیل دینے کی خواہش رکھتے تھے۔

گورنر جنرل غلام محمدکو زیادہ دلچسپی ایسے حکیموں میں تھی جو انھیں جنسی قوت بڑھانے کی ادویات دے سکیں یا پھر وہ مزاروں اور پیروں کے گرویدہ تھے۔ وہ لکھنو کے حکیم نابینا کو اپنے علاج معالجے کے لئے پاکستان بلواتے رہتے تھے۔ریاستی امور میں مذہب کے استعمال کو وہ بھی بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی طورپر طلوع اسلام والے غلام احمد پرویز پر انھوں نے اپنا دست شفقت رکھا تھا۔

جنرل ایوب خود کوکمالسٹ کہلوانا پسند کرتے تھے۔ وہ مولوی کے اسلام سے نالاں تھے اور اسلام کو جدید بنانا چاہتے تھے۔لہذا ان کی اس خواہش کی تکمیل کے لئے غلام احمد پرویز نے اپنی خدمات پیش کردی تھیں اور جنرل ایوب نے مناسب معاوضے پر یہ خدمات قبول بھی کرلی تھیں۔ ان دنوں ہر گیریژن میں غلام احمد پرویز کے لیکچر کا اہتمام کرنا ہر جے سی او کی ذمہ داری خیال کی جاتی تھی۔

جنرل یحیی خان کو جماعت اسلامی کی تائید و حمایت ببانگ دہل حاصل تھی اور جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری میاں طفیل محمد نے تو ان کے آئین جسے ایک مسیحی ماہر قانون اے ۔آر کارنیلس نے بنایا تھا کو اسلامی ہونے کا سرٹیفکیٹ دے دیا تھا۔

بھٹو نے کل وقتی مولوی کوثر نیازی بھرتی کرلیا تھا اور جزوقتی طور پر وہ مولوی غلام غوث ہزاروی کی خدمات بھی مستعار لے لیا کرتے تھے۔

جنرل ضیا نے اپنے مارشلائی دور میں مولویوں کے ریوڑ پال لیے تھے۔ مولویوں کے مابین جو فرقہ ورانہ ہم آہنگی ہمیں جنرل ضیا کی حمایت میں ملتی ہے وہ ماضی میں کبھی دیکھنے میں آئی تھی۔ مولوی دیوبندی ہو یا بریلوی یا پھر اہل حدیث جنرل ضیا کی چوکھٹ کو سبھی سلام کرتے تھے لیکن جنرل ضیا کو سب سے زیادہ عزیز ڈاکٹر اسرار احمد تھے جو ٹی وی پر آکر خلافت کے احیا کی آڑ میں جنرل ضیا کے مارشل لا ئی حکومت کو جواز فراہم کیا کرتے تھے۔

جنرل ضیا کا مارشل لا ختم ان کی موت کے ساتھ ختم ہوا تو ہمارے ٹی وی پر ملک غلام مرتضے نامی مولوی چھاگئے پتہ چلا کہ وہ حکمرانوں کی گڈ بکس میں ہیں اور ان کا تصور اسلام اسلام آباد کے بابووں کے دل کو بہت لبھاتا ہے۔

جنرل پرویز مشرف کی لبرل ازم کو ایک ایسا مولوی چاہیے تھا جو ان کو نظریاتی حمایت اور تعاون فراہم کرے۔ چنانچہ قرعہ فال جاوید احمد غامدی کے نام نکلا جو خود کو مولوی یا مولانا کہلانے سے احتراز کرتے تھے لیکن ان کی پٹاری میں مال وہی پرانا تھا جو ان کے پیشرو بیچا کرتے تھے فرق صرف یہ تھا کہ انھوں نے اپنے مال مسروقہ پر چاندی کے ورق لگا کر اسے جدید اور لبرل ازم سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی تھی۔

جاوید غامدی نے ہاتھ بڑھا کر یہ جام تھام لیا اورپھر غامدی کے لبرل اسلام کا ڈنکا ہرسو بجنے لگا۔ جنرل مشرف کے جانے کے ساتھ ان کا عہد خواب وخیال ہوا اور ساتھ ہی جاوید غامدی ٹی وی سکرینوں سے غائب اور جان بچانے کے خاطر ملایشیا تشریف لے گئے۔

اور اب اہل پاکستان عہد طارق جمیل میں ہم رہ رہے ہیں۔ طارق جمیل کے معاملے میں ہماری سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہے۔ ان کے خیالات اور افکار سے ہمارے وزیراعظم اور سر باجوہ متفق ہیں لہذا ہماری سیاسی اور عسکری کے ہاں خوشی اور غمی کے موقعوں پر ان کی موجودگی لازمی خیال کی جا تی ہے۔ طارق جمیل کے فہم اسلام سے ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کی عقل و دانش کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

Comments are closed.