مذہب، ریاست اور آج کا مسلمان

تنویر احمد خان 

تاریخ بتاتی ہے کہ مذہب کسی تہذیب، قومیت، زبان یا نظریے کی بنیاد پر بنی ریاست کی ایجاد ہوتا ہے اور ریاست ہی اسے معاشروں میں راِئج کرتی ہی۔ اور اگر ریاست مذہب ایجاد نہ بھی کرے تو مستعار لے کر اپنے مطابق ڈھال لیتی ہے۔

اگر مُلا اپنے دائرے میں شریعت، مذہبی بالادستی، اور خلافت داعی یا پھر کوئی سکہ بند رہبرِ اعلیٰ بننے کا متمنی ہے تو بہت سے ماڈریٹ کہلانے والے مسلمان بھی تو معاشرے کے جمود اور تخریب کا سارا ملبہ صرف مُلا پر ڈال کر مذہب کی کسی خیالی نشاطِ ثانیہ کے متمنی ہیں۔

مُلا یا عالمِ دین اپنے جامد نظریات، قطعیت اور ضدی رویوں کے ساتھ وقت کے شاہوں یا مسلح طاقتوں کی ہاں میں ہاں ملاتا اور اپنی پیداگیری کی دکان چلاتا ہے یہ آج سے نہیں، صدیوں سے ایسا ہی ہے۔مذہبی عالم کہلانے والے خیالی دنیا میں رہتے ہیں، انہیں صرف مذہب کے نام پر آمدنی اور عام آدمی کی اطاعت درکار ہوتی ہے۔ مُلا عصری حقیقتوں سے کوسوں دور رہتا ہے۔

آج متروکہ یونانی طب کو طبِ نبوی قرار دینے سے یا پھر علوم کے متروک ہوئے ورژنز کو اسلام کے ساتھ مکس کر کے درسِ نظامی بنا کر اسے جامع دینی و دنیاوی علم کہہ لینے سے ان کی شکستگی، کجیاں اور خامیاں دور نہیں ہو جائیں گی۔پرانے سافٹ ویئر کو اپڈیٹ کر کے ہی مذہب کا ارتقاء اور بقاء ممکن ہے۔

ملائیت آسمان سے نہیں اتری ہے۔ یہ تو مسلم ایمپائیر کے متحرب مسالک اور مختلف راجدھانیوں کے بادشاہوں نے اپنی سیاسی و معاشرتی قوت کو دوام دینے کے لیے خود رائج کی ہے۔جب دقیانوسیت اور جمود پر قائم ملائیت کو فروغ دے کر مُلا کو معاشرے کا برہمن بنا دیا جائے تو معاشرتی بربادی و تنزلی ہی مقدر بنے گی۔

مسلمان بادشاہ رفتہ رفتہ مُلا کی ڈھال میں محل و حرم میں مست ہو گیا، ملا مدرسے میں بے خوف من مرضی کرتا رہا اور دنیا آگے بڑھ گئی۔اس میں رومن یا غیر عرب تہذیبوں کا کیا قصور کہ انہیں تو اسلامی معاشرے کے بکاؤ برہمن یا ملا کو استعمال کرنے کا رستہ تو خود اسلامی ممالک یا اسلام کو مذہب بنانے والی ریاستوں کی جانب سے مہیا کیا گیا۔

مسلم مذہب سے جڑے عرب، ترک و دیگر حکمرانوں نے توسیعی عزاِئم یا اقتدار کے پھیلاؤ کا کون سا موقع چھوڑا تھا جو بعد میں دوسرے چھوڑ دیتے۔یہ تو شطرنج کی بازی ہے۔ جسے جہاں چال چلنے کا رستہ ملا اس نے چل دی۔ بازی آپ کے حق میں تھی تو آپ کا راج تھا۔ اب دوسرا اچھا کھیل گیا ہے تو وہ راج کرے گا۔

توحید و رسالت سے انکار نہیں۔لیکن اعراب لگانے کے نام پر خلیفہِ اول کے دور میں ترتیب دیا گیا اولین تحریری قرآن بعد میں جلائے جانے اور اپنا کوئی بھی تحریری ریفرنس نہ رکھتا قران کا نیا تحریری ورژن بنائے جانے کے بعد بےشمار مشکوک احادیث اور اختلافات و تضادات کی بنیاد پر قائم مذہبی فائبر آپ کے نزدیک جتنا بھی مقدس اور غلطی سے پاک ہو یہ اب اپنے ممکنہ تضادات اور تحریف کے باعث آپ کو سوائے کنفیوژن کے کچھ نہیں دے پائے گا۔

داعش کا خلیفہ ابو بکر البغدادی ہو، طالبان کا خلیفہ مُلا عمر ہو یا کوئی بھی محترم خلیفہ ہو، آپ کسی کو جتنا بھی مکرم مانیں، معصوم اور بےخطا تو وحی کا نزول پاتی نبی کی ذات ہے۔

لیکن کوئی بھی مذہبی شخص مذہبی فائبر میں شامل نقائص اور تضادات کی نشاندہی کرنے یا ممکنہ ملاوٹ کی چھان پھٹک پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنا ناقابلِ معافی جرم ہے بنا دیا گیا ہے ، ہاں مگر عصری حقیقتوں یا سائنسی اصولوں میں نقص ڈھونڈ کر انہیں جھٹلانے میں وہی شخص پیش پیش ہے۔اگر کوئی مذہبی فائبر میں، اس کے بلاوجہ پیچیدہ اور گنجلک کر دیے گئے سسٹم میں نقائص اور ممکنہ وارداتوں پر بات کرتا ہے، کوئی وضاحت طلب کرتا ہے تو وہ دہریہ یا کافر و منافق قرار پاتا ہے۔

توہینِ مذہب، توہینِ قرآن، انکارِ حدیث، توہینِ صحابہ کرام، توہینِ اولیا کرام، توہینِ اہلِ بیت، توہینِ رسالت یا توہینِ آئمہ کرام کا مجرم قرار پاتا ہے۔ کبھی کسی گرینڈ آیت اللہ کا تو کبھی خلافت اور امارت کا مجرم قرار پاتا ہے۔ واجب القتل قرار پاتا ہے۔

مذہب اور اس سے جڑے مذہبی محکمے کے خوف، کنفیوژن اور بے وجہ کی سکہ بند پیچیدگی کو دور کر کے اسکی بنیادی شکل کو ٹھیک اور سہل کرنے کا راستہ بہت فراست سے سیدھا کرنا ہو گا۔ جبھی بات آگے بڑھے گی۔آج اسلام سے جڑی ریاستوں، تہذیبوں یا ممالک میں مذہب کی شکل میں ایک ملاوٹ شدہ، جامِد ہوتا، تضادات سے بھرا اور متروک بیانیہ سینکڑوں اشکال میں رائج ہے جسے سب کا سب مقدس و ناقابلِ سوال مانا جاتا ہے۔

جِسے ایک آفاقی مذہب سمجھ کر آپ مان رہے ہیں، جس کا پرچار کر رہے ہیں، وہ صدیوں سے پاکبازی کا لبادہ اوڑھے نجانے کِتنے غاصِبوں نے اپنے اقتدار اور اِستبداد کے ایجنڈوں لئے استعمال کیا ہے۔گھڑنے والوں نے مذہب کے پردے میں جانے کیا کچھ گھڑ لیا اور آپ گھڑے گھڑائے کو بھی مقدس جان کے سب کچھ مُلا پر ڈال کے لگے ہیں سارے کے سارے مذہبی فائبر کو ڈیفینڈ کرنے۔

ہمارے مذہبی اور نیم مذہبی لوگوں کو جعلسازی اور خام خیالی کی بیماری تو پہلے سے لاحق تھی لیکن جب سے عقلی علوم اور نیچرل سائنسز نے زیادہ ترقی پائی ہے، مذہبیت میں مبتلا افراد کو سائنٹفک اصولوں پر بنی ہر جدید پراڈکٹ، ہر نئے سماجی ضابطے کی ایک نام نہاد مذہبی تاریخ گھڑنے اور پراڈکٹ کا جعلی نعم البدل تیار کر کے اسے استعمال کرنے کی بیماری شدت اختیار کر گئی ہے۔

آج شعوری ارتقاء کی منزِلیں طے کرتے کینیڈا اور سکینڈینیوین ممالک جیسے غیر مذہبی فلاحی معاشرے تشکیل پا چکے ہیں، جہاں فرد کو سوچ اور طرضِ معاشرت کی آزادی اور سوشل سکیورٹی اینڈ جسٹس حاصل ہے۔

وہ فرد آپکے مونوتھیسٹ نظریے سے اس حد تک تو متائثر ہو سکتا ہے کہ توحید پر ایمان لے آئے۔ لیکن وہ آپ کے باقی سارے پیکج کو رد کر دے گا۔بدلتی دنیا میں مذہب کا رول غیرمتشدد روحانی بالیدگی یا ماورائیت سے ملنے والے پیس آف مائنڈ کے حصول کے ایک ذریعے کا رہ جائے گا۔

سائنس، تحقیق، ایجادات اور جِدت کو مشعلِ حیات بنائے معاشروں کو اگر جدید سیاسی اور اخلاقی فلسفہ اور اس سے جڑا نظامِ جزا و سزا ان کا مطلوبہ مورل فائبر دے رہا ہے تو وہ کیوں اسلامک کوڈ کے نام پر صدیوں پرانی قبائلی موریلیٹی اپنے معاشروں میں اپلائی کرتے پھریں گے۔

نوع انسان کو جو انسانی و سماجی حقوق اور آسانیاں ایک دو صدی کے صنعتی، سائنسی اور شعوری انقلاب کے بعد ملی ہیں مذہب ہزاروں سال میں نہ دے پایا۔ آج جدید معاشروں میں رائج اچھائی کے معیارات سکیولر مورل فلسفے کی بنیاد پر طویل ڈسکشنز کے بعد بنے ہیں۔ملا تو صرف مارکیٹینگ ٹیم ہے۔ یہاں تو پراڈکٹ ہی ایکسپائیر ہو رہی ہے۔ اسکی کسی بھی انسٹیٹیوشنلائزڈ فارم کی ری کنسٹرکشن یا اوور ہالنگ مشکل ترین ہوتی جا رہی ہے۔

وہ لوگ جو اسلام یا کسی بھی سامی مذہب کو سیاسی یا سماجی تحریک بنا کر سرمایہ دارانہ نظام، کمیونزم، ماڈرنزم یا کسی بھی سیاسی و معاشرتی نظام سے جڑے استبداد و استحصال کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ فطرت سے جنگ کا خاتمہ کر کے کوئی مثبت تبدیلی لانا چاہتے، وہ جو اصلاحِ حال چاہتے ہیں۔

وہ یہ جان لیں کہ آج کا مثبت، انسان دوست اور ترقی پسند مذہب کسی بھی مزید ایڈیشن کے بغیر ایک خدا پر ایمان رکھنا ہے اور اسکے طائف میں پتھر کھا کر لوگوں کے لیے دعائے خیر کرتے یا صلیب پر چڑھے نمائندوں کی طرح بے باک اور بے لوث طرز عمل اپنانا ہے، بِنا برگزیدگی یا تقدیس کا دکھاوہ کیے انسانیت کی بلا تفریق خدمت کرنا ہے۔

ہمیں کسی بھی مذہب یا فرقہ کہ پیشوا کی توہین اور تمسخر کیے بغیر اس کے ساتھ ڈائیلاگ کی فضا قائم کرنی ہے، مُلا کو مین سٹریم معاشرے میں لے کر لانا ہے، اسے بتانا ہے کہ آپ کا شعبہ اپنی جگہ اہم ہے، بس آپ دوسرے شعبوں میں دراندازی نہ کریں، ہم خود میں آپ کے لیے برداشت پیدا کرتے ہیں۔ آپ کے لیے روزگار کے ذرائع ڈھونڈتے ہیں۔ آپ بھی سہل پسندی اور دو نمبری چھوڑ کر اپنی صفوں میں من گھڑت کی جگہ سچائی اور رواداری کو پروان چڑھائیں، جدت اور حقائق کو پروان چڑھائیں تاکہ جدید معاشرت کے ساتھ آپ کے تضادات کم ہوں اور کچھ پراگریس ہو سکے۔

ہمیں خدا کو، اسکے ڈیزائن کو جاننے کے لیے آج کے ارتقاء پذیر معاشروں میں رہتے ہوے بھی خدا سے ممکنہ پرسنل ریلیشن بنائے رکھنا ہے۔ہمیں جدید نیچرل اور سماجی قوانین سے ہم آہنگ ہونا ہے، انسانیت کو تخریب، سنگدلی اور تفرقے سے بچانا ہے۔ نہ کہ مبینہ ٹیمپرڈ بیانیوں میں مزید ٹیمپرنگ کر کے ان سے چمٹے رہنا ہے۔

Comments are closed.