کیا علما کا رویہ پاکستان میں طبی بحران مزید گہرا کر سکتا ہے؟

طبی ماہرین، سول سوسائٹی اور سیاست دانوں نے دو درجن سے زائد آئمہ کے اُس بیان پر تشویش ظاہر کی ہے، جس میں انہوں نے جمعہ کی با جماعت نماز پر ممکنہ پابندی کو مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ناقدین کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کا مسئلہ کافی سنگین ہے اور اگر حکومت مساجد کے آئمہ کو قائل کرنے میں ناکام رہی تو ملک کو ایک بہت بڑے طبی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے تقریبا دو درجن مذہبی رہنماؤں نے گزشتہ روز ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ وہ مساجد میں نمازوں اور جمعے کی اجتماعی نماز کو کسی صورت بھی بند نہیں کریں گے۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وباء سے نمٹنے کے لیے مساجد کو آباد کیا جائے اور حفاظتی اقدامات کے ساتھ ساتھ استفغار پڑھی جائے اور اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔

پاکستانی میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ تیزی سے ہو رہا ہے اور گزشتہ چند دنوں کے دوران اس میں شدت آئی ہے۔ ملک میں مجموعی طور پر اس وباء سے متاثرین کی تعداد تین سو سے بھی زیادہ ہو گئی ہے، جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق سات سو سے زائد زائرین ایران سے آئے ہیں اور ان کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ ان میں سے اکثریت ممکنہ طور پر اس وائرس کا شکار ہو سکتی ہے۔

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ مذہبی، سیاسی اور سماجی اجتماعات اس وائرس کے پھیلاؤ کا ایک بڑا سبب بن سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیوں کو محدود کر دیا ہے لیکن ایک مخصوص مذہبی طبقہ ایسی کسی پابندی کے حق میں نظر نہیں آتا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس چھوٹے سے گروپ کا یہ رویہ بھی تباہی کے طوفان کا سبب بن سکتا ہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف طبی ماہر اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر ٹیپو سلطان کا کہنا ہے کہ ان علماء کی منطق سمجھ سے باہر ہے، سعودی عرب سمیت کچھ مسلم ممالک نے پہلے ہی اجتماعی طور پر نماز جمعہ ادا کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ اجتماع سے یہ وائرس تیزی سے پھیل سکتا ہے اور ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہم ان کو کنٹرول کر سکیں۔ تو یہ طبی حوالے سے تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا‘‘۔

ان کا کہنا تھا، یہ انسانی جانوں کا معاملہ ہے، جسے ہر مذہب مقدم جانتا ہے۔ تو حکومت کو اس کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانا چاہیے اور نماز جمعہ، تبلیغی اجتماعات اور دیگر ایسی تقریبات پر پابندی لگانی چاہیے، جن میں لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں۔‘‘۔

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ ملک کا مذہبی طقبہ ہر حکومت کو مختلف معاملات پر بلیک میل کرتا ہے اور ابھی بھی وہ یہی کر رہے ہیں۔ تاہم اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبید عثمانی کا کہنا ہے، اگر حکومت بلیک میلنگ کا شکار ہوئی اور نماز جمعہ کے اجتماعات پر پابندی نہیں لگائی تو وائرس کے کیسز سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں اور ممکنہ طور پر لاکھوں میں ہوں گے کیونکہ ملک میں لاکھوں کی تعداد میں مساجد ہیں اور علماء کا معاشرے میں بہت اثر و رسوخ ہے‘‘۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر نے اس بیان پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، دنیا بھر اور پاکستان میں جتنے بڑے علماء ہیں، انہوں نے تو فیصلے ایسے ہی دیئے ہیں کہ جن سے انسانی جانیں بچیں۔ میرے خیال میں ہمارے ان علما کو طبی ماہرین کے ساتھ بیٹھنا چاہیے اور ان کی سفارشات سننی چاہیں اور تکنیکی نکات کو سمجھنا چاہیے اور پھر دونوں کو مل کر اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے‘‘۔

دنیا بھر میں بالعموم اور سعودی عرب میں بالخصوص کرونا وائیرس سے نبٹنے کے لئے مذہبی عبادات کو وقتی طور پر یا تو بند کردیا گیا ہے یا پھر بہت مختصر۔ آج نماز جمعہ صرف خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں ہوئی اور وہ بھی وقت کے اعتبار سے مختصر ترین لیکن کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے مولوی حضرات جو اٹھتے بیٹھے سعودی عرب مین اسلام کو ایک مثالی ریاست قراردیتے ہیں انھوں نے اس معاملے مین سعودی عرب کی پیروی کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اور تو اور سلفی مولویوں نے بھی سعودی عرب کی مثال کو قابل تقلید نہین سمجھا اور اپنے متولیوں پر زور دیا کہ وہ سنگین ہوتی ہوئی صورت حال کے باوجود جوق در جوق مساجد کا رخ کریں۔

دراصل سعودی عرب ہو یا متحدہ عرب امارات کی شیوخ کے زیر اقتدار ریاستیں سب میں کوئی عام شہری مسجد اور مدرستہ قائم نہیں کرسکتا۔ تمام مساجد اور مدارس حکومت کے زیر انتظام ہیں اور ان کے بارے میں حکومت جو بھی فیصلہ کرتی ہے اس کو ماننا تمام حکومتی ملازمین کی طرح مولویوں کے لئے بھی لازم ہے۔ کسی مولوی کی یہ جرآت نہیں ہے کہ وہ حکومتی احکامات کی سرتابی کرسکے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو نوکری سے تو ہاتھ دھوہی بیٹھے گا ساتھ میں اس کو جیل کی ہوا بھی کھانا پڑے گی۔ اس کے برعکس پاکستان میں مسجد اور مدرسہ اکثر صورتوں میں مولوی کی ذاتی یا پھر کسی مذہبی جماعت اور فرقہ کی ملکیت ہوتی ہے۔ یہ مساجد اور مدارس مولویوں کے انفرادی طور پریا مذہبی جماعتوں پر مسلط نام نہاد قیادت کا ذریعہ روزگار ہیں جسے وہ ہر قیمت پر چلانا اور اپنے قبضے مین رکھنا چاہتے ہیں۔ مساجد پر قبضے پر تو ہمارے ہاں قتل و غارت گری ہوتی ہے۔ مساجد پر قبضے کے لئے متحارب فرقوں میں سر پھٹول عام ہے۔

پاکستان میں مذہب مولوی کا تاجر اور دوکاندار کی طرح دھندہ ہے جسے وہ ہر حال مین جاری رکھنا چاہتا ہے۔ جتنے مرضی لوگ مر جائیں مولوی اپنے اس کام سے باز نہیں آئے گا تاآنکہ مسجد اور مدرسہ کو ریاستی انتظام میں نہ لے لیا جائے اور ائیدہ سے کسی شخص کو انفرادی طور پر مسجد اور مدرسہ قائم کرنے کی اجازت نہ دی جائے

DW/Liaqat Ali

Comments are closed.