عورت کو جنس نہیں، انسان سمجھیں

عدنان حسین شالیزئی

ایسے معاشرے میں جہاں لڑکیوں کے گینگ ریپ کی، لڑکیوں کی زبردستی کی شادی کی، وٹے سٹے کی شادی کی، کاروکاری کی رسم کی، کم عمری میں لڑکیوں کی بیاہی کی، عورت پر گھر میں تشدد کی، عورت کی ہراسگی کی، اساتذہ کی بلیک میلنگ کی ہزاروں واقعات پولیس کے روزنامچے، الیکٹرانک میڈیا کی فوٹیج اور اخبارات کی سرخیوں کی زینت بنتی ہوں۔ وہاں کی عورت اگر اپنا حق مانگے گی۔ تو اس مردہ ضمیر معاشرے کے مرد کو ہنسی تو آئے گی ہی۔ اسے عورت کے سوال کو سمجھنے میں وقت تو لگے گا ہی۔

جہاں عورت کو باپ کی، بھائی کی، چچا کی، ماموں کی، شوہر کی، دیور کی، سسر کی، ملک کی، سردار کی، خان کی اور چوہدری کی ملکیت سمجھا جاتا ہو۔ وہاں عورت کا جسم، عورت کی مرضی کے نعرے، چہ معنی دارد؟۔ جہاں کا مرد عورت کو ایک انسان، ایک فرد سمجھنے کی بجائے اسے ایک جنس سمجھتا ہو۔ جہاں ایک عورت کو احساسات اور جذبات سے عاری مٹی کا پتلا سمجھا جاتا ہو۔ وہاں کے مرد کے سامنے اگر کوئی عورت کی مرضی کی بات کرے۔ تو وہ لازماً ان باتوں کو رد کرے گا ۔ 

ایک ایسے معاشرے میں عورت اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا مطالبہ کرنے نکلی ہے۔ جہاں کی ریاست عورت کے استحصال میں براہ راست شریک ہو۔ جو ملک سماجی اور جنسی عدم مساوات میں 153 ممالک میں سے 151ویں درجے پر فائز ہو۔ جہاں کی عدلیہ عورت آزادی مارچ کے حق اور سچ پر مبنی نعروں کو متنازع نعرے قرار دے۔ جہاں کی میڈیا ایک عورت دشمن اور ذہنی طور مفلوج خلیل الرحمٰن قمر جیسوں کو اور چودہ سو سال پہلے کے معاشرتی نظام کے پیروں کاروں کو کوریج دے اور اکیس کروڑ کی عوام میں عورت دشمن پروپیگنڈے کی تبلیغ کرے۔ وہاں عورت کو ایک چیز سمجھنے والے پیدا ہوں گے نہ کہ عورت کو بہن، ماں اور بیوی سمجھنے والے اور انہیں معاشرے میں برابری کا حق اور حصہ دینے والے پیدا ہوں گے۔

عالم کفر اور دوزخ کے وارث عورتوں کو حقوق دینے کے معاملے میں جنت کے دعویدار مسلمانوں سے ہزار گنا بہتر ہیں۔علم و سائنس، مشاہدات و تجربات سے دوری کے باعث اسلام جامد ہو گیا جس کے باعث موجودہ زمانے کی ضروریات کے حل میں مذہب کافی حد تک ناکامی سے دوچار ہوا ہے۔ مذہبی اور روایتی عورت اس پرندے کی مانند ہے جو کئی سال پنجرے میں قید بھگتنے بعد آزاد تو ہوجاتا ہے مگر اس کے آزاد ہو کر اڑنے کی تمنا اور آرزو دم توڑ دیتی ہے۔ عرصہ دراز تک غلامی اور پردے میں رہنے والی ایک عورت، پنجرے میں بند پرندے کی طرح آزاد فضا میں اڑنے، گھومنے، پھرنے کو بیماری سمجھتی ہے۔ حالانکہ آزادی ہر جانادار کا بنیادی حق ہے۔ 

مذہبی، رجعتی، روایتی اور قبائلی معاشرے میں عورت گھر میں بندھے چوپائے کی طرح زندگی بسر کرتی ہے۔ عورت، اپنی آس سے لے کر اپنی سانس تک ایک مرد کی محتاج بنی ہوئی ہے۔ ایسے استحصالانہ نظام کو بدلنا چاہیے۔ ایسے بدبودار نظام کو بدلنا ہوگا۔ باخبر عورت کا ساتھ دے کر، بے خبر عورت کو احساس دلا کر عورت کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ایک باشعور مرد عورت آزادی مارچ میں شرکت کرے گا۔

آٹھ مارچ کے دن ایک مرد اپنی بہن، اپنی بیوی، اپنی ماں اور اپنی بیٹی کیلئے حق مانگے گا۔ وہی حقوق، جو اس جابرانہ، استحصالانہ، سرمایہ دارانہ، قبائلی اور رجعتی سماج نے سلب کر رکھے ہیں۔ آج کا ایک ترقی پسند مرد عورت کے خانی بہ شامہ عورت کی سماجی، سیاسی سرگرمیوں میں شرکت کو ممکن بنائے گا اور ایک عورت کا ساتھ مل کر برابری، خوشحالی، آبادی، سماجی انصاف، جنسی و صنفی مساوات اور ترقی سے معمور معاشرہ کی تشکیل ممکن بنائے گا۔بقول ظہیر کاشمیری

ہمیں خبر ہےکہ ہم   ہیں چراغ آخرِ شب۔                  ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے ۔

Comments are closed.