میثاق جمہوریت اور میاں نواز شریف کا کردار

شرافت رانا

یادر ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پی پی پی کی قیادت کے مابین چارٹر آف ڈیموکریسی  پر جون 2006 میں دستخط ہوئے ۔ اس میں یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ مناسب وقت پر دونوں قائدین ایک ہی فلائٹ سے پاکستان واپس آئیں گے ۔

چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط ہوتے ہی کیانی پاشا اور افتخارچوہدری پر مشتمل تگڑم میاں نواز شریف کے پاس پہنچی۔ رابطے کئے اور میاں نوازشریف کو پی پی پی سے الگ پاکستان واپسی کی دعوت دی گئی۔عمران خان مولانا فضل الرحمن اور مصطفی کھر جو اس وقت پرویز مشرف کی حکومت میں شامل تھے وہ خصوصی طور پر نواز شریف کے پاس پہنچائے گئے اور ایک نیا اتحاد   ، اے پی ڈی ایم ، جون 2007 میں بنایا گیا ۔جس میں پرویز مشرف کی بی ٹیم پوری کی پوری شامل تھی۔

میاں نواز شریف نے موقع ملتے ہی پی پی پی پر چار حرف بھیج دیئے۔ میثاق جمہوریت توڑ دیا۔شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے اے پی ڈی ایم بننے سے روکنے کے لیے نواز شریف کی بہت زیادہ منت سماجت کی مگر ناکام ہوئیں۔ نوازشریف افتخارمحمدچوہدری کے حکم ، یاد رہے کہ اس وقت عدالت افتخار چوہدری کو بحال کر چکی تھی ،پر  7 ستمبر 2007 کو اسلام آباد تنہا  واپس آ گئے  تو  انہیں  پرویز مشرف اور پرویز الٰہی نے بے عزت کرکے سعودی عرب واپس پہنچا دیا۔ 10 اکتوبر 2007 کو کو پرویز مشرف دبئی بے نظیر بھٹو سے ملاقات کے لیے پہنچا ۔

اب یاد رکھیں میاں محمد نواز شریف یا پاکستان مسلم لیگ نواز دس سال کے لیے سیاست چھوڑنے کے وعدہ پر کاربند ہو کر سعودی عرب دوبارہ مقیم ہو   چکے تھے۔ اور پاکستان میں سیاست ختم ہوگئی تھی۔ پاکستانی اخبارات بینظیر بھٹو کو ایک مایوس اور تنہا خاتون لکھ رہے تھے۔ جنرل مشرف نے جب بے نظیر بھٹو  ملاقات کی تو انہوں نے پرویز مشرف سے گلہ کیا کہ آپ نے اپنی کتاب,” سب سے پہلے پاکستانمیں لکھاہے کہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کرپٹ جوڑا ہیں۔بے نظیر بھٹو نے ڈیمانڈ کی کہ آپ اس کی تردید لکھیں۔

پرویز مشرف واپس آیا اور اس نے ایک آرڈیننس جاری کیا۔ اب آپ صرف اس بات کو سمجھ لیں کہ صدرمملکت اگر کسی بھی تحریر پر اپنے دستخط ثبت کردیں تو اسے قانون کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور اس کو قانونی زبان میں آرڈیننس کہتے ہیں اور یہ آرڈینیس اس لیے جاری کیا گیا کہ اس وقت پرویز مشرف کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ نئی کتاب لکھ سکتا۔پرویز مشرف نے لکھا کہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف بنائے گئے مقدمات سیاسی انتقام کا نتیجہ ہیں، جھوٹے ہیں، فراڈ ہیں اور خلاف حقائق ہیں اور اس پر اپنے دستخط کر دیے۔

اس کے بعد بینظیر بھٹو سے جب مذاکرات ہوئے توبے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کو وردی اتارنے کو کہا پرویز مشرف نے وردی اتار دی۔یہ بات یہاں سمجھنے کی ہے کہ پرویز مشرف اس وقت اس انجام سے خوفزدہ تھا اس کے خیال میں اگر وہ انتقال اقتدار نہ کرتا تو نیچے والی فوجی قیادت اسے ضیاءالحق بنانے کا فیصلہ کر چکی تھی۔

اب آپ یہ یاد رکھیں کہ اس پورے منظر نامے میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت اپنے دس سالہ معاہدہ کے تحت سعودی عرب میں مقیم ہے ۔ اور میثاق جمہوریت نامی کسی دستاویز کا وجود نہیں ہے۔اے پی ڈی ایم نامی جعلی سیاسی اتحاد نواز شریف کے اسلام آباد سے بالجبر سعودی عرب منتقلی کے بعد تتر بتر ہو گیا تھا۔ ملک میں سیاسی عمل جمود کا شکار ہو چکا تھا اور سیاسی آزادیاں ختم ہو رہی تھی۔

ان حالات میں شہید بے نظیر بھٹو نے پاکستان واپسی کا فیصلہ کیا۔ وقت گواہ ہے کہ پرویز مشرف پرویز کیانی فوجی اسٹیبلشمنٹ سپریم کورٹ سب کو بے نظیر بھٹو کی پاکستان آمد پسند نہیں تھی ۔ پاکستان آمد کے بعد بینظیر بھٹو پر متعدد قاتلانہ حملے ہوئے اور بالآخر انہیں شہید کر دیا گیا۔اگر بے نظیر بھٹو پرویز مشرف کو کوئی انڈرٹیکنگ دے کر آئی ہوتیں تو انہیں شہید کیوں کیا جاتا۔

اب یہ بات سمجھ لیں کہ میڈیا کے منشیوں نے آپ کے دماغ میں کیا بھوسہ بھر دیا ہے۔جس بہادر ، باہمت اور باحوصلہ خاتون نے پرویز مشرف کا جینا حرام کردیا اس کی وردی اتروائی اور بالآخر اپنی جان دے کر پاکستان میں جمہوریت بحال کروائی۔ آپ کو لگتا ہے کہ وہ کوئی معاہدہ کرکے آئی تھی۔ معاہدہ ایسی چیز ہوتی ہے جس کے دونوں فریق دستخط کرتے ہیں نواز شریف کے تینوں معاہدے منظرعام تک آ چکے ہیں تو پی پی پی کا اگر کوئی مبینہ معاہدہ وجود رکھتا یا پی پی پی نے کبھی کچھ دینے کا وعدہ کیا ہوتا تو کوئی تو گواہ سامنے آتا۔ کوئی تحریر پیش کی جاتی۔

اب کمال کی بات یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف جو ہر وقت، ہر لمحہ، ہر موڑ پر جمہوریت کی گاڑی کا ٹائر پنکچر کرتا ہے۔ اپنی ذات کے لیے سیاست کرتا ہے اور وعدہ سے پھر جانے والا، دھوکہ باز اور بےایمان ہے۔ اسے میڈیا ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے اور پی پی پی کی قیادت جو اصولوں کی خاطر جان کی قربانی دے دیتی ہے اسے بد عہد اور بےایمان بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

این آر او پر محض دستخط کروانا تھے۔ تھوک چٹوانا تھااس بات کو آپ ماضی میں اس طرح سے سمجھ سکتے ہیں کہ غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو کرپٹ کہا تھا۔جب نواز شریف کے ساتھ غلام اسحاق خان کا جھگڑا ہوا تو بے نظیر بھٹو نے پہلی شرط آصف علی زرداری سے حلف لینے کی رکھی تھی۔اور غلام اسحاق خان نے آصف علی زرداری سے ماحولیات کی وزارت کا حلف لیا تھا۔

ایک اور بات سنا دیتا ہوں جب 2008 میں پی پی پی کی حکومت بن گئی تو جسٹس ریٹائرڈ قیوم ملک اٹارنی جنرل پاکستان تھا۔پرویز مشرف حکومت نے اسے برقرار رکھا اور اسی سے سوئس حکومت کو خط لکھوایا گیا کہ یہ مقدمات سیاسی رنجش کی بنیاد پر بنائے گئے تھے ۔ یاد رہے کہ جسٹس قیوم نے کسی وقت میں اسی مقدمہ میں آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کو سزا سنائی تھی جب ساز باز والی ٹیپ سامنے آئی تھی تو جسٹس قیوم کو نوکری سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔

بھٹوز ہمیشہ کہتے ہیں کہ ہم تاریخ کو جواب دہ ہوتے ہیں جب بھی موقع ملتا ہے اپنے دشمنوں سے اپنی صفائی کی دستاویز لکھواتے ہیں ۔

Comments are closed.