کورونا وائرس کی وبا سے مشرقِ وسطیٰ میں گھریلو تشدد میں اضافہ

 

مشرقِ وسطیٰ میں کورونا وائرس کی وبا نے گھریلو تشدد میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مردوں کا زیادہ وقت گھروں میں گزارنا قرار دی جا رہی ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ملکوں کی حکومتیں کورونا وائرس کی وبا کو کنٹرول کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ اس خطے کی ریاستوں بشمول خلیج فارس کے عرب ممالک اور اسرائیل میں ان دنوں بیسیوں ہزار مریض کووِڈ 19 نامی بیماری میں مبتلا ہیں اور سماجی طور پر لاک ڈاؤن کی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔

سماجی تنظیموں کے کہنا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی مسلمان ریاستوں میں خواتین پر ہر روز کیا جانے والا جسمانی تشدد اب معمول کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ یہ وہاں کی پدر سری معاشرت کا تسلسل ہے۔ لبنان میں ایک سماجی کارکن رانیہ سلیمان کا کہنا ہے کہ عرب دنیا کی خواتین کو مار پیٹ کے ساتھ ساتھ اپنے خاندانوں کو محفوظ رکھنے کے سلسلے میں اضافی معاشرتی دباؤ کا بھی سامنا ہے۔

اس تناظر میں شمالی افریقی ملک تیونس کی نسائی امور کی وزیر اسما شری نے اس امر کی تصدیق کرتے ہوئے تشویش ظاہر کی کہ کورونا وائرس کی

وبا کو روکنے کے لیے کیے گئے حکومتی اقدامات سے عام گھرانوں میں خواتین پر چار دیواری کے اندر تشدد بڑھ گیا ہے۔ تیونس میں کورونا وائرس کی وبا کو روکنے کے سلسلے میں رواں ماہ کے وسط سے سول کرفیو نافذ ہے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق واضح طور پر دنیا کے ایک سو پچپن ممالک میں خواتین کو امتیازی رویوں کا سامنا ہے۔ اس تعداد میں سے نصف کے قریب ممالک مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ہیں۔ ان ممالک نے اپنے ہاں گھریلو تشدد کے انسداد کے لیے فوجداری قوانین بھی متعارف کرا رکھے ہیں تاہم گھروں میں کیے جانے والے تشدد میں کمی ابھی تک نہیں ہوئی۔

ایک خاتون لیلیٰ نے بتایا کہ شادی کے بعد سے اسے تشدد کا سامنا بالکل اسی طرح اور تواتر سے ہے، جیسے کسی جاندار کا سانس لینا۔ لیلیٰ کے مطابق اس صورت حال میں سالوں گزرنے کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اپنے فرضی نام لیلیٰ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اس خاتون نے اپنا اصل نام اور ملکی شناخت دونوں ظاہر نہ کیے جانے کی درخواست کی۔

لیلیٰ کا یہ بھی کہنا تھا کہ شوہر کی طرف سے مار پیٹ کے بعد وہ اپنے والدین کے گھر پناہ لینے پر مجبور ہو جاتی ہے اور پھر معاشرتی طعنوں اور کسی قسم کے اسکینڈل سے بچنے کی خاطر وہ ہر بار مجبوراﹰ واپس اپنے شوہر کے گھر لوٹ جاتی ہے۔ اس خاتون کے مطابق جب وہ واپس اپنے گھر آتی ہے، تو سبھی بچوں کے چہروں اور جسموں پر مار پیٹ کے نشان ہوتے ہیں۔

لیلیٰ اور اس جیسی دیگر خواتین کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات نے اس لیے بھی پریشان کر دیا ہے کیونکہ اب ان کے شوہر گھروں میں ہی ہوتے ہیں۔ ایک ترک خواتین عائشہ کا کہنا تھا کہ ایردوآن حکومت کو گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے ملک میں مزید سخت اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

DW

Comments are closed.