ایک کروڑ کے بدلے بارہ کروڑ واپسی کی درخواست


لیاقت علی

عبدالستا ایدھی کے بیٹے فیصل ایدھی نے عمران خان کو کرونا وائرس فنڈ میں ایک کروڑ کا چیک کیا دیا تو ہر طرف ہاہا کار مچ گئی۔ یہ کیا ہوریا ہے؟کیوں ہوریا ہے؟ ایدھی فاونڈیشن توخود مخیر حضرات سے چندہ وصول کرتی ہے اس کا حکومت کو چندہ دینے کا کوئی جوازنہیں ہے اوراگر اس کے پاس اتنی خطیر رقم موجود ہے تو بجائے اس کے کہ وہ حکومت کو عطیہ کرے اسے خود کرونا متاثرین کی مدد کرنا چاہیے یہ اوراس قسم کےاعتراضات اٹھائے جارہے ہیں۔

کچھ دل جلوں نے تو یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ فیصل ایدھی اقتدار کے ایوانوں میں کیا کررہا ہے؟ کچھ لوگوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا تھا کہ ایدھی فاؤنڈیشن اس چندے کی آڑ میں کچھ فوائد لینا چارہی ہے۔ سما نیوز میں ندیم ملک سے بات کرتے ہوئے فیصل ایدھی نے کہا کہ میں نے وزیراعظم سے درخواست کی ہے کہ ہم ایک ایدھی یونیورسٹی بنانا چاہتے ہیں اور ہو سکے تو اس کے لیے چارٹر جاری کروا دیں اور دوسرا ہم کچھ دس بارہ آئٹمز درامد کرتے ہیں جن پر ڈیوٹی معاف کر دی جائے۔ انھوں نے بتایا کہ2018 اور 2019 میں ایدھی فاونڈیشن نے دس کروڑ روپے ڈیوٹی کی مد میں ادا کیے ہیں وہ بھی ریفنڈ کیے جائیں ۔

دراصل چیرٹی یا خیرات کا دھندہ سرمایہ داری کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔ اس دھندے کو سرمایہ دار ریاست ہمیشہ پرموٹ کرتی ہے کیونکہ چیرٹی دراصل ریاست کو اس کی ذمہ داریوں سے بری الذمہ قرار دیتی ہے اور لوگوں کو اپنے معاشی حقوق کے لئے آواز اٹھانے اور جدوجہد کرنے کی بجائے انھیں چیرٹی اداروں کی طرف للچائی نظروں سے دیکھنے کی ترغیب دیتی ہے۔ عبدالستار ایدھی، مدرٹریسا اور اس قسم کے کئی اور لوگ چیرٹی کے ذریعےریاست کی خدمت کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں ۔غریبی ان کے نزدیک سماجی مسئلہ کی بجائے ایک سماجی گفٹ ہےجس کے نام پر وہ اپنی شخصیت کی تعمیر اور اثاثے جمع کر کے اپنے آل اولاد کے لئے ایمپائر تعمیرکرتے ہیں۔

فیصل ایدھی کو ایوان اقتدار میں جانے کا طعنہ دینےوالوں کی خدمت میں عرض ہے کہ خود عبدالستار ایدھی نے بھی جنرل ضیا کی مارشل لا کا ساتھ دیا تھا اور اس کی نامزد مجلس شوری کے رکن بن گئے تھے۔بڑھاپے میں انھوں نے فاوئڈیشن کی ایک نوجوان خاتون ورکر سے خفیہ شادی بھی کرلی تھی اور ان کی اس شادی کا راز اس وقت کھلا جب انھوں نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ خاتون مذکورہ ایدھی فاونڈیشن کا دو کلو سونا لے کر فرار ہوگئی ہے۔

جتنے بھی خیراتی ادارے کام کررہے ہیں یہ ان کے مالکان کی ذاتی جائیداد بن جاتی ہیں۔ ان خیراتی اداروں میں ان کے مالکان کی اپنی طرف سے کنٹری بیوشن نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ یہ عامہ الناس کے زکوۃ اور صدقات سے قائم کردہ ٹرسٹ میں اپنے رشہ داروں اور دوستوں کو بھاری تنخواہوں پر ملازم رکھتے ہیں اور ٹرسٹ پراپرٹی اور وسائل کو اپنے اور اپنے خاندان کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

ہم سیاسی جماعتوں میں وراثت کو روتے رہتے ہیں اگر ان چیرٹی اداروں کے اعلی عہدوں پر فائز اشخاص کا بائیوڈیٹا چیک کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس پر عطیات اکٹھے کرنے والی شخصیت کے رشتہ دار اور دوست احباب فائز ہوں گے۔ خود ایدھی اپنی ایدھی فاونڈیشن اپنے بیٹے فیصل ایدھی اور بیگم بلقیس ایدھی کو دے کر گئے ہیں۔

چیرٹی وہی جنئوین اور قابل اعتماد او ر قابل اعتبار ہے جو کوئی فرد، خاندان اور کمیونٹی اپنے اجتماعی فنڈ سے کرے جیسا کہ بل گیٹس نے اپنے اثاثوں کابڑا حصہ خیراتی کاموں میں لگایا ہے۔ہمارے ہاں تو عام لوگوں سے زکوۃ و صدقات اکٹھے کرکے ہسپتال کی شکل میں اپنی ایمپائیر کھڑی کی جاتی ہے اور پھر یہ ایمپائر ورثے میں اپنے بچوں کو دی جاتی ہے۔

Liaqat Ali/Web Desk

Comments are closed.