شہباز شریف کی گڈ گورننس :اورنج ٹرین کا چند دن کابجلی کا بل آٹھ کروڑ آیا ہے

اسلم ملک

اورنج ٹرین چند ماہ سے کبھی کبھار آزمائشی طور پر چلائی جاتی ہے۔ اس کا بجلی کا بل آٹھ کروڑ روپے آیا ہے۔جب روز دن میں درجنوں بار چلے گی تو بجلی کا اور دوسرے خرچ کتنے ہوں گے؟ خود ہی اندازہ لگالیں۔ سرکاری طور پر فی مسافر خرچ کا حساب 287 روپے لگایا گیا ہے۔

اب اتنا ٹکٹ تو نہیں لگایاجاسکتا۔ اگر میٹرو بس جتنا بھی رکھا تو کروڑوں روپے روزانہ یا اربوں روپے سالانہ مزید نقصان ہوگا، جو حکومت پنجاب بھرے گی اور اٹک سے صادق آباد اور لودھراں سے پنڈ دادن خاں ہر شخص پر قرض چڑھتا جائے گا۔ بلکہ ان لاہوریوں پر بھی جنہیں شہر کے سو سے زیادہ دوسرے روٹس پر ویگنوں وغیرہ سے سفر کرنا ہوتا ہے، انہیں کرائے پر کوئی رعایت نہیں ہوگی لیکن خسارے کے حصہ دار ہوں گے۔ چینیوں کا اربوں کا قرضہ پہلے ہی ہوچکا ہے۔

اورنج ٹرین پر سفر کرنے والے بیشتر لوگوں کو بھی مالی نقصان ہوگا۔ اب ایک دو سٹاپ تک ویگن والے دس روپے لیتے ہیں۔ لیکن اورنج ٹرین پر میٹرو کی طرح یکساں ٹکٹ ہوگا جو کم از کم تیس سے پچاس تک ہوسکتا ہے۔

یہاں یاد دلادوں کہ کئی سال پہلے میٹرو بس چلی تھی تو اس کے فی مسافر خرچ کا تخمینہ 70 روپے لگایا گیا تھا۔ اس پر فیصلہ کیا گیا کہ 20 روپے ٹکٹ ہوگا،50 روپے سبسڈی سرکاری خزانے سے دی جائے گی۔ ظاہر ہے دوسرے کسی روٹ کے مسافر کو50 روپے رعایت نہیں ملتی۔ میٹرو بس کے روٹ پر ٹرانسپورٹ کا کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں ۔ 24 گھنٹے ویگنیں ملتی تھیں۔ مسئلہ اب پیدا ہوا ہے جب اورنج کی آمد کے خوف سے بیشتر ویگن والے یہ روٹ چھوڑ گئے ہیں۔ اورنج چلی تو مسئلہ مزید بڑھ جائے گا۔ جب یہ دس بارہ بجے بند ہوجائے گی اور لوگ چنگچی یا فی سواری والے ٹھنسے رکشوں پر سفر کرنے پر مجبور ہوں گے۔

اگر کسی کا خیال ہے کہ اس ٹرین سے ٹریفک رواں ہوجائے گی تو وہ یہ ذہن سے نکال دے۔ سڑک کے دونوں طرف مکان دکانیں گرانے سے سڑک جتنی چوڑی ہوئی، اتنی جگہ ٹرین کیلئے ستونوں اور ڈیوائڈر نے لے لی ہے۔ میٹرو پر بھی ٹریفک ویسی ہی رہی تو کراسنگ اور سگنل بند کردئیے گئے۔ جس سے پیدل چلنے والے کوئی آدھے پونے گھنٹے میں جان خطرے میں ڈال کر ہی سڑک پار کرسکتے ہیں۔ موٹر سائیکل والے سفید پوشوں پر سڑک پار کرنے کیلئے دوتین کلو میٹر مزید سفر کا خرچ بھی پڑگیا ہے۔

البتہ یہ اگر انڈر گراؤنڈ ہوتی تو پوری سڑک بچ جاتی اور ایسے مسئلے نہ ہوتے۔دراصل اربوں کے یہ منصوبے لوگوں کی فلاح کیلئے نہیں، اربوں کمانے کیلئے بنائے گئے۔اورنج لائن ٹرین کی لاگت اب 300 ارب تک پہنچ گئی ہے۔ایک ماہر کے مطابق یہ دنیا کی مہنگی ترین ٹرین ہے۔ جس کا روزانہ کا نقصان 3 کروڑ روپے اور سالانہ 14 ارب روپے ہوگا۔

میٹرو ایک ارب روپے فی کلو میٹر میں بنی۔ اورنج لائن کا ایک کلومیٹر 6 ارب روپے کا ہے۔کہا گیا ہے کہ اورنج ٹرین پر روزانہ ڈھائی لاکھ افراد سفر کریں گے ۔ابتدا میں جب کہا گیا تھا کہ منصوبے پر 162 ارب روپے خرچ ہوں گے تو ایک ماہر نے حساب لگایا تھا کہ اتنی رقم سے تمام ڈھائی لاکھ مسافروں کو ایک ایک مہران کار خرید کر دی جاسکتی ہے۔162 ارب روپے سے شوکت خانم جیسے 41 جدید ہسپتال بنائے جاسکتے ہیں۔اس سے دس ہزار پرائمری سکول یعنی پنجاب کے ہر ضلع میں 300 نئے سکول بنائے جاسکتے ہیں۔(اس وقت پنجاب میں سکول جانے کی عمر کے 47 فیصد بچے سکول نہیں جاتے)۔

یہ تو اس ماہر کا خیال تھا، مجھے خیال آیا کہ پنجاب میں پہلے سے بسیں چلانے والے ایک لاکھ ڈرائیوروں کو ایک ایک اپنی بس دی جاسکتی تھی کہ اپنے علاقے میں چلائیں اور کماکر قیمت ادا کریں۔اب جب کہ لاگت 162 کروڑ سے بڑھ کر 300 ارب ہوچکی ہے تو اتنی رقم میں سکول ہسپتال بھی کچھ زیادہ ہی بن سکتے۔ لیکن چھوٹے منصوبوں میں کہاں دلچسپی تھی۔ اربوں کے منصوبوں میں ہی اربوں کمائے جاسکتے ہیں۔ ایسے منصوبوں کے ٹھیکیدار بھی ارب پتی ہوچکے ہیں تو ان کے سرپرستوں کی کمائی کا خود اندازہ کرلیں۔

Comments are closed.