پاکستانیوں کو پاکستانی عوام کی فکر کرنی چاہیے

محمد شعیب عادل

امریکہ اس وقت کرونا وائرس کی زد میں ہے۔ بے شمار حفاظتی اقدامات کے باوجود اس کی شدت میں کمی نہیں ہوئی۔روز بروز کیسوں میں نہ صرف اضافہ ہورہا ہے بلکہ ہلاکتوں کی تعداد بھی زیادہ ہوتی جارہی ہے۔ امریکہ میں کرونا وائرس کا پہلا کیس ریاست واشنگٹن کے شہر سیاٹل میں ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی شدت میں اضافہ ہوگیا اور سیاٹل کو امریکہ کا وہان کہا جانے لگا۔بہرحال ریاست واشنگٹن میں اس پر قابو پالیا ہے ۔اور واشنگٹن سٹیٹ نے پانچ سو وینٹی لیٹر مرکز کو دیے ہیں کہ جہاں ضرورت ہو اس کو استعمال کر لیں۔

سیاٹل کے بعد اس وائرس نے نیو یارک میں سب سے زیادہ تباہی پھیلائی ہے۔ پچھلے تین چار ہفتے نیویارک کے لیے قیامت خیز رہے ہیں۔ ہلاکتیں اتنی زیادہ ہوئی ہیں کہ ڈیڈ باڈیز رکھنے کے لیے کئی ریفریجریٹر کنٹییر استعمال کیے جارہے ہیں۔ مردوں کو اجتماعی قبروں میں دفنایا جارہا ہے ۔ مگر ایک امید افزا خبر یہ ہے کہ نیویارک میں اب اس کی شدت کم ہورہی ہے۔لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلے جیسے اقدامات سے اسے کنٹرول کر لیا گیا ہے ۔ امریکہ کی تمام ریاستیں اس وائرس کی تباہی کا شکار ہوئیں ہیں کچھ میں شدت کم اور کچھ میں بہت زیادہ ہے ۔ اب وائرس دوسری ریاستوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے ۔ ہر ریاست اپنے اپنے حالات کے مطابق حفاظتی اقدامات اٹھا رہی ہے تاکہ اموات کم سے کم ہوں۔

امریکی حکومت نے اس کی شدت دیکھتے ہوئے پچاس بلین ڈالر فوری طور پر صحت کے شعبے کو دیے ہیں اور ویکسین کی تیاری کے لیےکئی بلین علیحدہ سے دیئے ہیں۔ کچھ کمپنیوں نے ویکسین تیار کی ہے اور اس کے کلینکل ٹرائل ہو رہے ہیں جس میں چھ سے بارہ ماہ لگ سکتے ہیں۔ اس وائرس کی شدت اتنی ہے کہ امریکہ جو کہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے میں صحت کی موجودہ سہولتیں ناکافی ہوگئی ہیں۔ جس امریکی شہر میں اس کی شدت زیادہ ہوتی ہے وہاں میک شفٹ ہسپتال بنائے جارہے ہیں۔جنرل موٹرز کارپوریشن ، فوڈ موٹرز کارپوریشن، جنرل الیکٹرک کارپوریشن اور تھری ایم جیسی بڑی کمپنیوں نے جنگی بنیادوں پر وینٹی لیٹرز ماسک اور حفاظتی لباس کی تیاری میں مصروف ہیں۔ جنرل موٹرز نے کہا ہے کہ وہ اگلے ہفتے سے وینٹی لیٹرز کی سپلائی شروع کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر پاکستانی یار دوست اپنے ملک کی فکر کرنے کی بجائے اور اپنے ہاں صحت کی سہولتوں پرآواز اٹھانے کی بجائے امریکہ میں صحت کی ناکافی سہولتوں پر زیادہ فکر مند ہیں اور چینی حکومت کے اقدامات کی تعریف کر رہے ہیں۔ جن کے نزدیک چین ایک آئیڈیل ملک ہے وہاں بھی حکومت کو میک شفٹ ہسپتال بنانا پڑے۔ چین سے وہی خبر باہر جاتی ہے جس کی حکومت اجازت دے۔ کہا جارہا ہے کہ چین نے ہلاکتوں کی تعداد کو چھپایا ہے اس لیے وہ سیکیورٹی کونسل میں اس ایشو پر بات نہیں کرنا چاہتا۔

جبکہ امریکہ ایک کھلا ملک ہے جہاں کوئی خبر چھپائی نہیں سکتی۔امریکی پریس نے امریکی حکومت پر کڑی نگاہ رکھی ہوئی ہے اورروزانہ صدر ٹرمپ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ لیکن کیا چین میں ایسا ممکن ہے ؟ چین میں کوئی بھی حکومتی پالیسیوں پر تنقید تو کجا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جس چینی ڈاکٹر نے کرونا وائرس کے متعلق خطرے سے آگاہ کیا الٹا اسے پکڑلیا گیا اور اس سے معافی نامہ لکھوایا گیا۔

میں نے چند دن پہلے لکھا کہ پاکستانی عوام کے وسائل دفاعی اخراجات کی نذر ہورہے ہیں لہذا پاکستانی ریاست کو چاہیے کہ دفاعی اخراجات ختم کرکے صحت کی سہولتوں پر صرف کیے جائیں۔ لیکن یار دوست میرے پیچھے پڑ گئے کہ تم امریکہ کولعن طعن کیوں نہیں کرتے کہ وہ اپنے دفاعی اخراجات ختم کرے، اسلحہ کی تیاری بند کردے ۔ جب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا چین اور روس نے اسلحہ ساز فیکٹریاں بند کردی ہیں؟ تو اس پر توجہ نہیں دیتے۔

ایک دوست نے تو یہ بھی لکھ دیا کہ امریکہ صحت کی سہولتوں پر مجرمانہ غفلت کا مرتکب ہوا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ امریکہ کوئی آئیڈیل ملک نہیں ہے اور نہ ہی وہ تنقید سے بالا تر ہے۔ اس میں اگر بے شمار اچھائیاں ہیں تو خرابیاں بھی ہیں ۔ امریکہ میں عدالتی نظام موجود ہے اگر کوئی غفلت ہوئی تو اس کو سزا ملے گی۔ امریکی عوام پاکستانیوں سے زیادہ باشعور ہیں وہ ان معاملات سے نمٹ لیں گے۔ آپ امریکہ کی فکر کرنے کی بجائے پاکستان میں صحت کی ناکافی سہولتوں پر آواز آٹھائیں۔

چند دن پہلے حامد میر نے بھی اپنے پروگرام میں امریکہ کو لعن طعن کی ہے کہ اس نے صحت کی سہولتوں کی نسبت دفاعی اخراجات پر زیادہ خرچ کیا ہے۔ لیکن پاکستانی ریاست کیا کررہی ہے اس پر کوئی سوال اٹھانے کو تیار نہیں۔

One Comment