عالمی وباء اور مفادات کا ٹکراؤ

خالد محمود

اس وقت کاروباری ادارے ،ریاستیں اور گلوبل کارپوریشنز لکیر کے ایک طرف ہیں اور انسان دوست ذمہ دار سیاستدان، عوام سمیت لکیر کے دوسری طرف ۔ایک طرف منافع خور ہیں اور ایک طرف وہ انسان دوست جو زندگیاں بچانے کی خاطر اپنا دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ دونوں فریقین کے درمیان گھمسان کی لڑائی چل رہی ہے۔انسانیت سے محبت کرنے والے انسان دوست بنی نوع انسان کو مہلک وائرس سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔لیکن منافع خوروں کی ساری ترجیح اپنے منافع کی بقا ہے بھلے اس کے لئے دس بیس لاکھ انسان موت کے منہ میں چلے جائیں ان کی بلا سے!

اس وقت ہم اس فضول بحث میں نہیں پڑتے کہ کرونا وائرس کی آمد ایک فطری حادثہ تھا یا بائیالوجیکل ہتھیار بنانے والی لیبارٹری سے کسی بڑی سلطنت کے استبدادی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے لانچ کیا ہے ۔ہمارے پاس اس وقت اس طرح کے مکالمے اور دلیل بازی کے تعیش کی ہرگز گنجائش نہیں ہے۔اس وقت سر پر کھڑا سب سے سنگین خطرہ یہ ہے کہ انسانی لاپرواہی سے کہیں زیادہ سے زیادہ لوگ موت کے منہ میں نہ چلے جائیں۔

بلّھے شاہ کہتا ہے:۔

بلھیا رب کہو نا کہو آئی صورت سچا رہو

تاریخ گواہ ہے کہ سلطنت اور ریاستیں اپنے اقتدار کے دوام اور خبطِ عظمت کی خاطر لاکھوں بے گناہ انسانوں کے قیل عام سے دریغ نہیں کرتی ہیں اور نہ کبھی اس پر شرمندگی کا اظہار کیا ہے۔ شیکسپئیر نے کنگ لئیر میں اس کا اظہار بہت خوبصورت الفاظ میں کیا ہے:

As flies to wanton boys are we to the gods;  They kill us for their sport.

اس وقت نیو یارک اسٹیٹ میں کرونا وائرس کی وجہ سے دس ہزار سے زیادہ انسان موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ہلاکتوں کے اعداد و شمار والا خط اب انسانی مداخلت اور ریاست کے انتظامات کی بدولت نیچے آیا ہے۔طبی ماہرین اور اہل دانش جانتے ہیں کہ اس وائرس کا فی الحال کوئی کامل علاج نہیں ہے۔

بنی نوع انسان کے پاس اس وقت دو ہی اختیار یا آپشن بچے ہیں کہ یا تو سماجی فاصلوں کی بالکل پرواہ نہ کریں اور وائرس کو انسانی زندگیاں کنٹرول کرنے دیں بلکہ ان سے کھیلنے دیں۔ دوسری آپشن یہی ہے کہ گھر میں رہیں سماجی قربتیں تیاگ دیں اور وائرس کو کنٹرول کریں۔دونوں آپشنز کے ساتھ بیک وقت دل لگی جیسا کہ اس وقت ملک میں ہو رہا ہے گھر گھر موت کی پرچیاں بانٹنے کے مترادف ہے۔عجیب اتفاق ہے کہ وباء کے دنوں میں پیٹرن اور کلائینٹ ریاستیں ایک جیسے تذبذب اور مخمصے سے دو چار ہیں۔

اس وقت سب سے زیادہ متاثر کن لائحہ عمل اور دلائل نیو یارک اسٹیٹ کے گورنر اینڈر یو کومو نے اپنی چودہ تاریخ کی پریس کانفرنس میں دیے ہیں۔گورنر اینڈریو نے ایک کیتھولک گھرانے میں جنم لیا ہے اور ابتدائی تعلیم ایک کیتھولک سکول میں حاصل کر چکے ہیں۔وہ مذہبی طبقے کے درد اورعلّت سے بخوبی واقف ہیں۔ انہوں نے برملا یہ بات کہی ہے کہ ہلاکتوں میں کمی اس لئے آئی ہے کہ ہم سب اسے مل کر نیچے لائے ہیں۔ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں کمی نہ تو خدا لایا ہے،نہ ایمان لایا ہے اور نہ ہی تقدیر لائی ہے۔ انہیں کیتھولک چرچ سے وابستہ لوگوں سے ایسٹر کے اجتماعات نہ ہونے کی وجہ سے دل ہمدردی ہے۔ مگر انہیں تمام چرچ جانے والوں کی زندگیوں سے محبت بھی ہے۔اسی لئے انہوں نے اپنی ریاست میںمذہبی اجتماعات پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے۔

انہیں ریاست نیو یارک کی عوام نے اپنی نمائندگی اور حفاظت کی خاطر چُنا ہے۔ان کی اولین ترجیح اپنے عوام کی زندگیوں کی حفاظت ہے۔ وہ تمام مالی وسائل اس وباء سے لڑنے میں خرچ کر چکے ہیں۔اور وفاق کی وسیع مالی طاقت سے اپنا کردار ادا کرنے کو کہہ رہے ہیں۔

اس کے برعکس امریکی وفاقی حکومت بھی پاکستان کی طرح اپنی ریاستوں پر تنقید کر رہی ہے۔گورنر اینڈریونے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ وہ ان ٹیسٹ کٹس اور حفاظتی طبّی سامان کی خرید اری ایک ہی پلیٹ فارم پر ایک ہی جگہ ’’فیڈرل ایمرجینسی مینجمنٹ ایجنسی ‘‘ کے وسیع اختیارات کے تحت کریں تاکہ ریاستوں کے درمیان خریداری کے لئے مسابقت پیدا نہ ہو۔اگر ایسا ہونے دیا جاتا ہے تو کمپنیاں اپنا سامان صرف زیادہ بولی لگانے والوں کو بیچیں گی جو عوام اور پبلک فنڈز پر ایک اور اضافی بوجھ ہو گا۔

ادھرپاکستان میں بھی این ڈی ایم اے کے ٹیسٹ کٹس اور حفاظتی سامان کی تقسیم کے طریقہ کا پر صوبہ سندھ کے تحفظات ہیں۔جنہیں ان کی آبادی کی شرح کے حساب سے بانٹا نہیں جا رہا ہے۔شاید اسی وجہ سے مولویوں کو لاک ڈائون کی خلاف ورزی پر اکسایا گیا ہے۔وفاق کے پاس اتنے مالی وسائل ہیں کہ وہ تمام مساجد کے پیش امام کو گھر بٹھا کے کھلا سکتی ہے۔لیکن ایسا کرنے سے یا تو سماج میںمولویوں کے اثرات اور دبائو کم ہونے کا اندیشہ ہے۔ جس سے آئندہ ملّا ئوں کی پراکسی فائیٹر بننے کی قوت میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے ۔اگر مساجد میں لاک ڈائون کی نرمی،نماز جمع اور تراویح باجماعت ادا کرنے کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے اس طریقے سے نمازی اور مولویوںسے وائرس خود ہی نمٹ لے گا تو بھی بھی سنگین اخلاقی اور قومی جرم ہو گا۔ریاست کی اولین ترجیح اپنے شہریوں کی جان مال کی حفاظت ہونی چاہئیے نہ کہ ان سے حاصل ہونے والی رقوم۔

تمام معاشی ماہرین اور ٹیکس والے جانتے ہیں کہ صوبہ سندھ سے محصولات کا حجم بہت زیادہ ہے۔اور قومی خزانے پر پلنے والی طفیلی مفت خوروں کو عوام کی جانوں سے زیادہ اپنے حصے اور بخروں کی فکر لاحق ہے۔نیشنل میڈیا پر ابہام اور عملی دوگرفتگی کے پرچار سے ہمیشہ برسر اقتدار قوتوں کو منافع ملتا رہتا ہے۔

Comments are closed.