ریاست اور شہری

شرافت رانا

ملک میں بار بار جبر اور منافقت کی مسلسل حکمرانی نے ڈائیلاگ کا وجود ختم کر دیا ہے۔ پی پی پی اور اے این پی جیسی جمہوری جدوجہد اور آئینی حکومت کے لیے جانیں قربان کر دینے والی پارٹیوں کے کم از کم پچاس فیصد لوگ لوگ مذہبی امور پر ڈائیلاگ کرتے ہوئے اشتعال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تو غیر سیاسی گروہوں کی بابت کیا کہا جائے۔

احمدیوں (قادیانیوں) کا مسئلہ پاکستانی معاشرہ میں اسی طرح افراط و تفریط کا سب سے بڑا شاہکار مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ پر پاپولر بیانیہ کے خلاف ایک لفظ لکھنے کے بعد آپ اپنی آئندہ زندگی کی فکر میں پڑ جاتے ہیں۔ اس مسئلہ کی بنیاد ہمارے ہاں دین اور ریاست کی غلط تفہیم سے جڑی ہے ۔ دنیا کی تاریخ میں مختلف مواقع پر ریاست اور اس کے شہری کے مابین مختلف طرح کے رشتے قائم ہوتے اور ٹوٹتے رہے۔

پہلے پہل کل ریاست قبیلہ کی شکل میں تھی جہاں پر آپ صرف اور صرف حسب نسب اور خونی رشتہ کی وجہ سے ایک قبیلہ کے شہری قرار پاتے تھے۔اس کے بعد ایک دور میں مذہبی ریاستیں عروج پر آئیں۔ مذہب یا ریاست میں ریاست اور باشندے کے درمیان عقیدہ کی بنیاد پر رشتہ استوار ہوتا تھا۔ ریاست اپنے باشندے سے عقیدہ کے نام پر جان و مال اور ہر طرح کی قربانی لینے کا حق رکھتی تھی۔

زمانہ قبل از اسلام میں عیسائی ریاستیں اور اس کے بعد مسلمان ریاستوں کو اسی طرح کی ریاست میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔ جہاں پر شہری کے پاس کم سے کم حقوق ہوتے تھے اور ریاست کے پاس زیادہ سے زیادہ اختیارات ہوتے تھے ۔ عقائد اور نظریاتی اختلاف پر لاکھوں افراد کا قتل عام کیا گیا۔

جدید دور میں ریاست کی حیثیت کو دوبارہ ڈیفائن کیا گیا ہے۔ جدید ترقی یافتہ اور باشعور معاشروں میں ریاست اور شہری کے درمیان کوئی مذہبی تقدس پر مبنی رشتہ ہرگز نہیں ہے۔ ماضی میں ریاست آقا اور شہری رعیت قرار پاتے تھے۔ آج کی جدید ریاست میں میں شہری آقا اور مالک اور ریاست ان کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری لینے والاادارہ بن گئی ہے۔ جدید علم سیاسیات میں شہری اور ریاست کے درمیان ان حقوق وفرائض کی تقسیم کے سلسلہ میں کئے جانے والے معاہدہ کو آئین کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ ماضی میں آئینی حکومتوں کا وجود نہیں ہوتا تھا، اور ریاست کی حیثیت بادشاہت یا ملوکیت کی تھی۔

بدقسمتی یہ ہے کہ آج تک مسلمان علمائے کرام ریاست کی جدید ہیئت کو سمجھنے کے لئے کوئی عملی علمی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔آج بھی مسلمان علماء کرام جو اپنی طرح علم سیاسیات کے مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ ملوکیت اور مذہبی ملوکیت کو ہی ریاست سمجھتے اور مانتے ہیں۔جب بھی آپ ریاست اور شہری کے مابین غیر آئینی رشتہ ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے تو ریاست فوری طور پر شہری کے کندھوں پر سوار ہوکر اس کا نرخرہ دبا لیتی ہے۔

جدید ریاست کا تصور شہری کے حقوق کا تحفظ قرار پایا ہے ۔ مسلمان علمائے کرام اس رشتہ کو دریافت کرنے میں تاحال ناکام رہے ہیں۔ اس موضوع پر پوری دنیا میں مسلمان علماء کرام میں سے محض مولانا وحید الدین خان نے ہی کام کیا ہے۔

جب ہم جدید آئینی ریاست کے نظام اور بندوبست کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو یہ ہمیں ایک ایسی معاہدہ میں بندھی ریاست دکھائی دیتی ہے۔ جو اپنے شہریوں کے مابین کسی بھی بنیاد پر ،نسل ، رنگ ، عقیدہ ، زبان ، یا قبیلہ کی بنیاد پر کوئی تعصب روا نہیں رکھتی۔اور جدید ریاست اپنے شہریوں کی بابت ان معلومات کے حصول میں بھی دلچسپی نہیں رکھتی۔ مجھے یقین ہے کہ تمام جمہوریت پسند دوست جدید آئینی ریاست کے تصور کو مجھ ناچیز سے بہتر سمجھتے ہیں۔

کسی بھی انسان کے عقیدہ کی بابت دریافت کرنا یا عقیدہ کی بابت رائے دینے کا مطلب محض یہ ہے کہ ریاست اپنے شہری کے ساتھ حقوق و فرائض کا آئینی رشتہ استوار کرنے کی بجائے آمریت یا ملوکیت کا رشتہ استوار کر رہی ہے۔ جہاں وہ اپنے شہری کو کو انسان کی بجائے رعیت یا رعایا یا غلام سمجھنے پر اتر آئی ہے۔

احمدیوں کے عقائد کو غیر اسلامی یا غیر شرعی قرار دینے کی بابت لاکھوں دلائل یقینی طور پر علماء کرام کے پاس موجود ہونگے۔ مگر جدید ریاست کے تصور کو سمجھتے ہوئے مجھ ناچیز کی رائے علمی اعتبار سے محض یہی ہے کہ اگر ریاست اس عمل اور فعل میں شریک ہوتی ہے تو وہ اپنے کچھ شہریوں کے حقوق غصب کرنے کی ذمہ دار بن جاتی ہے۔ اور جونہی ریاست اپنے کسی ایک شہری کو دوسرے شہریوں کے غیر برابر سمجھنے میں غلطی کرتی ہے ۔ اسے آئینی جمہوری ریاست تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

یہاں پر بہت سے دوست دلائل لے کر پیش قدمی کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ قرآن پاک یا حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ غیر مسلموں کی جان لے لی جائے اور انہیں شہری کے برابر کے حقوق بالکل نہ دیئے جائیں۔علمائے کرام جب کسی کو جذباتی انداز میں اشتعال دلا دیتے ہیں تو سب سے پہلے اس سے عقل چھینتے ہیں۔

کیا میں گنوانا شروع کروں کہ بہت سے ایسے فرائض جنہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں معاشرت کا لازمی اور ضروری جزو مانا اور منوایا جاتا تھا۔ ہم ترقی اور جدیدیت کی وجہ سے ترک کرنے پر نہ صرف مجبور ہوئے بلکہ آج ان کا تذکرہ اپنی کتب میں سے ہٹانے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر پوری دنیا میں سے آج ایک مسلمان ملک بھی بھی جنگ کے ذریعے مال غنیمت کے حصول فعل کو اپنی آئینی ذمہ داری نہیں بناتا ۔

آپ مجھے کسی بھی صورت ایسا اختیار نہیں دیں گے کہ آج میں ایک مسلح جتھہ لے کر مختلف مذہب کے لوگوں کے قافلہ پر حملہ کروں ان کا مال و اسباب مال غنیمت کے طور پر حاصل کرلوں اور ان کی عورتوں کو غلام بنا لوں۔ چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا گزشتہ کتنے عرصہ سے منسوخ ہوچکی ہے۔ کوڑوں کی سزا عملی طور پر عرصہ دراز سے منسوخ ہوچکی ہے۔

حکومت میں تبدیلی کے نظام گزشتہ چودہ سو سال میں مسلمان ملکوں میں آزمائے گئے۔ کبھی ان پر سوال کھڑا نہیں کیا گیا۔تو کیا وجہ ہے کہ آج کے دور میں ریاست کے اپنے ہی کسی شہری کو برابر حیثیت دینے پر قرآن اور حدیث نکال کر کیوں حملہ کیا جاتا ہے۔اس کے پیچھے صرف اور صرف ملوکیت کی 14 سو سالہ تاریخ ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمان علماء کرام نے ریاست عقیدہ کے بغیر کیسی ہو سکتی ہے پر مناسب ہوم ورک کیا ہی نہیں ہے۔

آج ہمیں اس بات کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا کہ جدید آئینی ریاست میں ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ غیر منصفانہ معاہدہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ریاست آقا نہیں ہے۔ ریاست حقوق و فرائض کی نگرانی کی ذمہ دار ہے ریاست ملازم ہے اور شہری آقا یا مالک ہے۔

جملہ مسلمانوں کو اس امر کو سمجھنا ہوگا کہ جس طرح موجودہ علماء کرام کی سیاست کے تمام موضوعات پر اس سے قبل رائے غلط تھی غلط مانی گئی اور زمانہ نے غلط ثابت کی۔ اسی طرح احمدیوں کے مسئلہ پر بھی ان کا جو موقف ہے اسے وقت کی عدالت ردی میں پھینک چکی ہے اس بات کو آج سمجھ لیں یا دس سال بعد سمجھ لیں ا سے ختم ہونا ہی ہے۔

 

Comments are closed.