لہو لہو افغانستان اور ہماری منافقت

محمدحسین ہنرمل

پھر وہی لہولہان اور گھائل افغانستان ۔انسانی خون پرپلنے والے ظالموں نے قابل رحم افغانوں کو اس مہینے میں بھی نہیں بخشا جس کے احترام اور تقدس کالحاظ غیر مسلم بھی کرتے ہیںمنگل کے روز پولیس کی وردی میں ملبوس تین مسلح دہشت گردوں نے کابل میں زچہ بچہ اسپتال پرحملہ کیا ۔ اسپتال میں میٹرنیٹی وارڈ کو نشانہ بنایاگیاجس میںنومولودبچوں ،ان کی ماووں سمیت تیرہ افراد شہیداور درجن بھر زخمی ہوگئے ۔

منگل ہی کے روز ہونے والادوسرا حملہ ایک خودکش حملہ تھا جو ننگرہار کے ضلع شیوہ میں ایک سابق پولیس اہلکار کی نماز جنازہ میں کیاگیا۔ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس حملے میں بھی چوبیس افراد شہید اور پچاس کے قریب زخمی ہوئے ہیں ۔سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی فرشتے جیسے ننھے بچوں ،،ماووں اور دیگر شہداء کی خوں آلود تصاویر دیکھ کر دل فگار ہوا ۔پوری رات ان ناقابل یقین المناک واقعات کے بارے میں سوچتا رہا کہ کیا ان لوگوں کا دین محمدی سے بھی کوئی نسبت ہوسکتاہے جن کے ہاتھ رمضان کے مہینے میں کلمہ گو مسلمانوں، مسلمان خواتیں اور فرشتوں جیسے بچوں کے خون سے لتھڑے ہوئے ہو؟

دوسری طرف ہمارے ہاں یہ بھی ایک المیہ رہاہے کہ ایسے دل ہلانے والے سانحات پیش آنے کے باوجود ہم کھل کر ظالموں کی مذمت کرنے سے کتراتے ہیں۔حملے میں اگر طالبان ملوث بھی ثابت ہوجائیں لیکن مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں کو ان کے اوپر پردہ ڈالنے کی فکر دامن گیر ہوجاتی ہے ۔مذکورہ حملوں کے بعد بھی ایسے بے شمار لوگ سوشل میڈیا پر سامنے آئے جو طالبان کودودھ کے دھلے فرشتوں جیسے پیش کرنے لگے تھے۔

ایک دوست نے میری ایک پوسٹ پراپنی رائے دیتے ہوئے شکوہ کیا تھا کہ طالبان تو کابل اور ننگرہار حملوں کی تردید کرچکے ہیں، لہٰذاان حملوں کو ان کے کھاتے میں ڈالنا مناسب نہیں ہے؟ میرا جواب تھا کہ داعش اور طالبان دونوں اس نوعیت کے حملوں میں ملوث پائے گئے ہیں، یوں ظن غالب کی بنیاد پراگر آج کے حملے بھی طالبان سے منسوب کیا جائے تو اس میں کیاقباحت ہے؟ کیونکہ طالبان نے ماضی بعید میں بھی اور ماضی قریب میں بھی بارہا مرتبہ عوامی مقامات،اسپتالوں اور عوامی اجتماعات کو نشانہ بنایا ہے جس میں خواتین اور بچوں تک شہید او ر زخمی ہوئے ہیں۔

میرا کہنا تھا کہ جہاں تک طالبان کے تردیدی بیان کاتعلق ہے توایسے بیانات کو سنجیدہ اس وقت سنجیدہ لیا جاسکتا ہے جب وہ خود کو مکمل طور پر بیگناہ افراد کے قتل عام سے بری الذمہ ثابت کردیں‘‘۔میرا ہمیشہ یہ دعویٰ رہاہے کہ افغانستان میں امن کی بحالی کے سلسلے میں دوسری ہر کمیونٹی کے مقابلے میں ہمارے علمائے کرام اور مذہبی جماعتوں کے رہنما بہتر کردار اداکرسکتے ہیں ۔لیکن افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ ان لوگوں نے اس بارے میں ہمیشہ لب بستگی اور مجرمانہ خاموشی کو ترجیح دی ہے۔کیا قیامت کے دن ہمارے خطیبوں سے ان مظالم کے بارے میں پوچھا نہیں جائے گا جو منبر پر بیٹھ کر ہزاروں میل کے فاصلے پرسعودی عربیہ اور شام کیلئے دعائیں مانگتے اور گڑگڑاتے ہیں لیکن اپنے ہم زبان ، ہم نسل اور دربدرہمسایہ افغانوںکومحض معمولی مفادات اور مصلحتوں کی وجہ سے بھلا بیٹھے ہیں؟ کیا مولانا فضل الرحمن اس معاملے میں بری الذمہ قرار پائیں گے جوبین الافغان مفاہمت میں کردار ادا کرنے میں اب بھی تامل اور ہچکچاہٹ کامظاہرہ کررہے ہیں؟

غور کیاجائے تودوسری طرف یہاںکے نام نہاد روشن خیال اور قوم پرست طبقے کے لوگوں نے بھی ظالم اور مظلوم کو ایک مخصوص عینک سے دیکھنے کا بھونڈا وتیرہ اپنایاہواہے ۔ان لوگوں نے فغانستان میں ہونے والے ان مظالم کی کبھی مذمت نہیں کی ہے جوسرچ آپریشنزکے نام پر افغان سیکورٹی فورسز کی طرف سے عوام کے اوپر ڈھائے جاتے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ ان لوگوں سے ان بچوں کے قتل عام کی مذمت بھی نہ ہوسکاجودوسال پہلے قندوز کے ایک مدرسے میں امریکی بمباری کے نتیجے میں شہید ہوئے تھے۔پچھلے سال زیروٹو قطعہ کے نام سے ا فغان سیکورٹی فورس کے ایک دستے نے جلال آباد کے علاقے مجبورآبادمیں ایک گھر پر چھاپہ مارکربیک وقت چار بھائیوں کو موت کی نیندسلادیاتھا۔ان چارمقتول بھائیوں کی میتیں بعد میں مشتعل لوگوں نے ننگرہار کے ضلعی ادارے کے سامنے بطور احتجاج رکھ کر قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیاتھا۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونائیٹڈ نیشن اسسٹنٹ مشن اِن افغانستان نے افغانستان میں سال 2019 یکم جنوری تااکتیس مارچ کے دوران پیش آنے والے سویلین حادثات کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں رواں سال کے ابتدائی تین مہینوں کے دوران کل سترہ سوتہتر سویلین افراد نشانہ بنے ہیں جن میں پانچ سو اکیاسی افراد ہلاک اور گیارہ سو بیانوے افراد زخمی ہوئے ہیں۔کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ان تین ماہ کے دوران صرف افغان سیکورٹی فورسز کی کاروائیوں کے نتیجے میں تین سوپانچ سول لوگ ہلاک اور تین سو تین زخمی ہوئے ہیںاورساتھ ساتھ یہ بھی لکھاہے کہ رپورٹ بتاتی ہے کہ 2018 کے مقابلے میں سال2019میں افغان سیکورٹی فورسز کی کاروائیوں میں سویلین ہلاکتوں کی تعداد میں انتالیس فیصد اضافہ ہواہے۔

یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ افغان عوام اب نہ صرف طالبان کو بد دعائیں دیتی ہیں بلکہ حکومت کے سیکورٹی فورسز سے بھی مایوس ہوچکے ہیں جو سیکورٹی کے نام پر ان کی جانیں لے رہی ہیں۔ ظالم اور مظلوم کو مخصوص عینگ میں دیکھنے والے ان دونوں طبقات کے لوگوں سے میری مودبانہ گزارش ہے کہ خداکیلئے باطل کو کاونٹر کرنے کیلئے ایک پیچ پر آو اوربلا تفریق اس عفریت کے خلاف آواز اٹھاو۔خدا کیلئے تعصب کے زہرمیں لتھڑی ہوئی بات کی بجائے ’’قول سدید‘‘ کہاکرو۔ وما علینا الاالبلاغ المبین ۔

Comments are closed.