افریقہ میں کووڈ 19 سے ڈیڑھ لاکھ افراد کی موت کا خدشہ

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا یورپ میں کم ہورہی ہے لیکن اگر وقت پر مناسب اقدامات نہ کیےگئے تو افریقہ میں ڈیڑھ لاکھ افراد ہلاک ہوسکتے ہیں۔

جرمنی میں رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاری ہونے والے تازہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں کووڈ 19 سے متاثرین کے 913 مزید کیسز سامنے آئے اور اس طرح ملک میں کورونا سے متاثرین کی تعداد ایک لاکھ 73 ہزار 152 ہوگئی ہے۔ اس دوران 101 افراد کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ جرمنی میں اب ہلاکتوں کی کل تعداد سات ہزار 842 تک پہنچ گئی ہے۔  

ادھر جرمنی کے شہر فرینکفرٹ کی گوئٹے یونیورسٹی میں کام کرنے والے وائرولوجسٹ اور بائیو کیمسٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے کووڈ 19 کے علاج کے لیے ایک دوا بنانے کے  سلسلے میں ممکنہ نقطہ آغاز کی شناخت کر لی ہے۔ سائنس کے معروف عالمی جریدے نیچرمیں اس کی تفصیلات شائع ہوئی ہیں۔

محقیقین کا کہنا ہے کہ انہوں نے سارسسی او وی -2 کو خلیوں میں انفیکٹ کرنے کی شناخت کر لی ہے۔ ان کا کہنا ہے  کہ انہوں نے جسم میں پائے جانے والے ان چھوٹے سالموں کی بھی نشاندہی کر لی ہے جو انسانی جسم کے خلیوں میں وائرل کی نقل کو روکنے کا کم کرتے ہیں۔ ماہرین کو امید ہے کہ ان کی اس تحقیق کی بنیاد پر کووڈ 19 کے علاج کے لیے دوا کی تیاری ممکن ہوسکے گی تاہم اسے ابھی کلینک کے طویل تجربات سے گزرنا ہوگا۔ 

امریکا کی صورت حال

جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق امریکا میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں کووڈ 19 میں مبتلا مزید ایک ہزار 754 افراد ہلاک ہوگئے ہیں اس طرح ملک میں ہلاکتوں کی تعداد 85 ہزار 813 ہوگئی ہے۔ عالمی سطح پر کورونا وائرس کی وبا سے سب سے زیادہ امریکا متاثر ہوا ہے جہاں 14 لاکھ سے بھی زیادہ افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ ادھر ریاست فلوریڈا میں صدر ٹرمپ کے معروف کلب مار اے لاگوکو ہفتے سے دوبارہ  کھولنے کا اعلان کیا گيا ہے۔ حکام کے مطابق ساحل سمندر پر واقع اس کلب کے ریسٹورنٹ، پولز اور دیگر تمام سہولیات کو دو ماہ کے بعد سنیچر سے دوبارہ کھول دیا جائے گا۔

ادھر امریکا میں تقریبا پونے چار کروڑ افراد نے بے روزگاری کے بھتے کے لیے درخواستیں جمع کی ہیں اور ایک تخمینے کے مطابق امریکا میں کام کرنے والی تقریبا ایک چوتھائی آبادی اب بے روزگار ہو چکی ہے۔  کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤن کے تحت جو احتیاطی اقدامات کیے گئے اس سے امریکی معیشت پر برا اثر پڑا ہے۔

چین کے شہر ووہان میں جمعہ 15 مئی کو چار مزید کیس سامنے آئے ہیں اور اس طرح چین میں مجموعی طور پر 82 ہزار 933 افراد کووڈ 19 سے متاثر ہیں اور اب تک چار ہزار 633 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔  غور طلب بات یہ ہے کہ چین میں گزشتہ ایک ماہ میں اس وبا سے کوئی بھی شخص ہلاک نہیں ہوا ہے۔ چین نے اپنی معیشت کو بھی جزوی طور پر کھول دیا ہے لیکن سوشل ڈسٹینسنگ کے تمام اصول و ضوابط پر سختی سے عمل کیا جا رہا ہے۔ ملک نے بیرونی ممالک سے داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔  

برازیل میں وزارت صحت نے جمعرات 14 مئی کو 13 ہزار 944  کووڈ 19  کے مزید کیسز کی تصدیق کی ہے۔ ایک دن میں اتنے زیادہ کیسز کا یہ ایک نیا ریکارڈ ہے جبکہ ایک روز قبل  ہی گيارہ ہزار کیسز سامنے آئے تھے اور اس طرح اب برازیل میں کورونا سے متاثرین کی مجموعی تعداد دو لاکھ بیس ہزار کے قریب ہوگئی ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں 844 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور اس طرح مجموعی طور پر ہلاکتوں کی تعداد 13 ہزار 933 ہوگئی ہے۔ 

انفیکشن کے اتنے تیزی سے بڑھنے کے باوجود برازیل کے صدر جیئر بولسونارو ریاستی حکومتوں سے پابندیوں کو ہٹانے اور کاروبار کھولنے پر زور دے رہے ہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ معیشت کی تباہ کاری سے زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے ملک میں قحط، فاقہ کشی کا حوالہ دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر معیشت اسی طرح تباہ ہوتی رہی تو وائرس سے زیادہ افراد بھوک سے مر جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن اس کا کوئی حل نہیں ہے۔

میکسیکو میں بھی گزشتہ چوبیس گھنٹوں 2409 مزید کیسز کا پتہ چلا ہے جبکہ 257 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ میکسیکو میں متآٹرین کی تعداد 42 ہزار 595 ہے جبکہ چار ہزار 477 افراد اب تک ہلاک ہوچکے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کی ایک نئی تحقیق کے مطابق افریقہ میں کورونا وائرس سے بیس کروڑ سے بھی زیادہ افراد کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے اور اگر وقت پر مناسب اقدامات نہ کیےگئے تو آئندہ برس تک  ڈیڑھ لاک افراد تک ہلاک ہو سکتے ہیں۔   

ادھر بنگلہ دیش میں روہنگیا مسلمانوں کے سب سے بڑے پناہ گزین کیمپ بھی کورونا وائرس سے متاثرین کے چند کیسز کا انکشاف ہوا ہے۔ بنگلہ دیش کے کوکس بازار علاقے میں واقع اس کیمپ میں تقریبا دس لاکھ روہنگیاؤں نے پناہ لے رکھی ہے اور حکام کے مطابق اب تک دو افراد میں وائرس کی تصدق  ہوچکی ہے۔ متاثرین کو قرنطینہ کر دیا گيا ہے اور ان کا علاج چل رہا ہے۔ محکمہ صحت کے مطابق اس کیمپ میں مقیم بہت سے افراد  کا ٹیسٹ کیا جارہا ہے۔

DW.Com

Comments are closed.