شمالی وزيرستان ميں دو لڑکيوں کا غيرت کے نام پر قتل

خیبر پختونخوا کی پولیس کے مطابق شمالی وزیرستان میں غیرت کے نام پر قتل کی گئی لڑکیوں کے کیس میں مرکزی ملزم نے عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف کر ليا ہے۔ لڑکيوں کو ايک ويڈيو وائرل ہونے کے بعد قتل کيا گيا۔

اعترافی بیان میں ملزم نے قبول کیا ہے کہ اس نے وی‍ڈیو بنانے کے ليے اپنے دوست کا موبائل فون استعمال کیا تھا۔ اس دوست کو پولیس پہلے ہی گرفتار کر چکی ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ مقامی پولیس کے ليے ايسے حساس علاقے میں اس طرح کے کیس سے نمٹنا، انتہائی مشکل کام ہے۔ علاقے کے افراد اور متعلقہ خاندان کے ارکان، کوئی بھی پولیس میں رپورٹ کرانے کے ليے تیار نہیں تھا۔

ڈوئچے ویلے اردو نے اس سلسلے میں شمالی وزیرستان ميں تعينات پولیس افسر شفیع اللہ گنڈاپور سے رابطہ کیا، تو انہوں نے بتایا، غیرت کے نام پر قتل کے اس کیس ميں ملوث پانچ ملزمان میں چار کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ زير حراست ملزمان میں ویڈیو کلپ بنانے والا اور استعمال ہونے والے فون کا مالک بھی شامل ہے۔ ملزمان کو بدھ کے روز عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں انہوں نے تسلیم کیا کہ ویڈیو انہوں نے بنائی تھی اور انہیں بعد میں معلوم ہوا کہ ان لڑکیوں کو قتل کر ديا گیا‘‘۔

گنڈاپور کا مزید کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں اس نوعیت کے حساس کیسز سے نمٹنا آسان نہیں ہوتا۔ اسی ليے انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا نے ان کی سربراہی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم بنائی ہے، جس نے بہت کم وقت میں ملزمان تک پہنچنے ميں کامیابی حاصل کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان جیسے علاقے میں اس طرح کے کیسز کا حل نکالنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

پندرہ مئی کو پولیس کی مدعیت میں درج کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سولہ اور اٹھارہ برس کی دو لڑکیوں کو قریبی رشتہ داروں نے غیرت کے نام پر قتل کر ديا۔ چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس میں شمالی وزیرستان کے علاقے گڑیوام سے تعلق رکھنے والی تین لڑکیاں اور ایک لڑکا، قابل اعتراض حرکات کرتے ہوئے دکھائی ديے۔ پولیس کے مطابق اس ویڈیو کے عام ہونے کے بعد دو لڑکیوں کو قتل کر دیا گیا۔

وزیرستان کی قدامت پسند قبائلی روایات میں اس طرح کی حرکات کو ناقابل برداشت تصور کیا جاتا ہے۔ شورش زدہ علاقے شمالی وزیرستان میں غیرت کے نام پر قتل کا یہ پہلا واقعہ ہے، جس میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے گرفتاریاں کی ہیں۔ انتہائی حساس نوعیت کے اس معاملے کی درست تحقیقات کے ليے صوبائی پولیس سربراہ نے تحقیقاتی ٹیم کی حوصلہ افزائی بھی کی۔

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے اس حوالے سے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ توقع ہے کہ تیسری لڑکی کو تحفظ فراہم کیا جائے گا اور ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔

Comments are closed.