کیا ہم اجتماعی قبرکھود رہے ہیں؟

بیرسٹر حمید باشانی

انسان ایک سماجی حیوان ہے۔  اس کے لیے دوسرے انسان سے سماجی یا جسمانی فاصلے رکھناایک مشکل اوراکتا دینے والا کام ہے۔  مگر یہ صورت حال انسان کو پورے سکون سے سوچنےاورغوروفکرکا موقع فراہم کرتی ہے۔

 تنہائی کے ان لمحات میں انسان اس طرز زندگی کے بارے میں بھی غور کرتا ہے، جو کورونالاک ڈاون اورسماجی دوریوں  کےعمل سے پہلے تھا۔  انسان حیرت و افسوس سے یہ ماننے پر مجبور ہے کہ وہ زندگی کوئی ضرورت سے زیادہ ہی تیز رفتار وار ہنگامہ خیز تھی۔  اس ہنگامہ خیزدنیا کے شب وروز پرغورکرکہ حیرت ہوتی ہے کہ ہم لوگ بالکل جنونیوں کی طرح زندگی کی شاہراہ پرسرپٹ دوڑ رہے ہیں۔  خود کار مشینوں کی طرح اپنے اپنے کام میں لگے ہیں۔اگرمزید غور کیا جائے تواس بھاگ دوڑ کا بیشترحصہ بے معنی یا غیر ضروری لگتا ہے۔

 زندگی کی بنیادی ضروریات کی دوڑمیں شامل ہونا ہرانسان کے لیے ناگزیر ہے، اور اس کا جواز بھی موجود ہے۔  مگرہماری بیشتربھاگ دوڑ ایسے بے شمارچھوٹے بڑے کاموں کے لیے ہوتی ہے، جن کو کیے بغیر بھی زندگی بڑے آرام و سکون سے گزرسکتی ہے ۔  مگرانسانوں کی ایک بڑی تعداد ان ہی چھوٹے موٹے کاموں میں اپنا زیادہ تروقت صرف کرتی ہے۔

 کورونا لاک ڈاؤن اورفاصلے رکھنے کےعمل کےدوران بہت سارے ممالک میں انسان کو یہ نیا تجربہ ہواہے کہ اشیائے خوردونوش کے علاوہ سب کچھ بند ہونے کہ باوجود انسان کا گزارہ ہو رہا ہے، اوربغیر کسی  قابل ذکرتکلیف کے ہو رہا ہے۔  بہت سارے اذہان میں مگر یہ سوال اٹھتا ہے کہ بیشترغیرضروری اشیا کی خرید و فروخت اورغیر ضروری کاموں کی انجام دہی کے لیے دوڑتے ہوئے ہم نے اپنے ارد گرد کے ماحول کو کس قدربگاڑ دیا ہے ؟ اس کا اندازہ وہ انڈیکیٹردیکھ کر ہوتا ہے، جو ہمیں بتاتے کہ لاک ڈاون کے دوران ہماری فضا میں موجود کاربن ڈائی اکسائڈ کی خوفناک حد تک بڑھی ہوئی مقدارمیں کتنی کمی ہوئی ہے، اورموحولیاتی آلودگی میں کتنا فرق پڑا ہے۔

 کئی شہروں میں کئی چھوٹے بچوں نے شاید زندگی میں پہلی بارنیلا آسمان دیکھا ہے، جس پراس پہلے انہوں نے ہمیشہ گرد وغبار کی چادر سی تنی ہوئی دیکھی تھی۔  کئی لوگوں نے مدتوں بعد دوردراز کے برفیلے پہاڑوں کو دوبارہ دیکھا، جن کے وہ بچپن میں نظارے کیا کرتے تھے۔  کئی جگہوں پرلوگوں کوجھیلوں اورندیوں میں بہتا ہوا شفاف نیلا پانی دیکھنے اور بہت ہی صاف ہوا میں سانس لینے لطف اٹھانے کا موقع بھی کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہی ملا ہے۔

اس لاک ڈاؤن نے ہمیں اس بات پر غور کرنے کااچھا موقع دیا کہ ہماری اس دنیا کو ماحولیاتی تباہی سے بچانا کتنا ضروری ہے۔  لاک ڈاؤن ختم کر کہ پہلے کی طرح  معمول کی بھاگ دوڑ کےآغاز سے پہلے حکومتوں اورعالمی لیڈروں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہم روز مرہ کے طرززندگی میں چھوٹی چھوٹی اورمعمولی تبدیلوں سے اپنے ماحول کو خود اپنے ہاتھوں تباہی سے کیسے بچا سکتے ہیں۔  قدرت کا وجود ہمارے اپنے وجود کا ثبوت ہے۔ اس کی دیکھ بھال اس کا ذمہ دارانہ استعمال ہم پرلازم ہے۔  ہمارے پانی جنگلات، چرند پرند فطرت کے وجود کا حصہ ہیں، جن کوہم غلط  اور بے دردی سےاستعمال کر کہ برباد کر رہے ہیں۔  ہم اپنے ارد گرد کے قدرتی ماحول کو جن چیزوں سے برباد کرتے ہیں، ان میں صنعتی آلودگی جیسے بڑے عناصر سے لیکرگھر کے کچرے اورگھر میں پانی کے بےجا استعمال تک کئی چھوٹی چیزیں شامل ہیں۔

کورونا لاک ڈاون اوربحران کے دوران ہمیں اس بات کا گہرائی سے اندازہ ہوا کہ ہم موت سے کس قدرخوفزدہ ہیں۔  مگرحیرت کی بات یہ ہے کہ اگر ہم موت سے اس قدر خوف زدہ ہیں،  تو یہ جو حقیقی موت اور تباہی ہمارے سامنے کھڑی ہے، اس سے ہم کیوں نہیں ڈرتے؟  ہم خود اپنے ہاتھوں سے اپنی اجتماعی قبرکیوں کھود رہے ہیں؟  ہم اپنے ارد گرد کے ماحول کو دن بدن پہلے سے زیادہ زہریلا اور اتنا آلودہ کیوں کر رہے ہیں ، جوایک دن رہنے کے قابل ہی نہ رہے۔

یہ جوہم روزانہ اپنی فضا اورسمندروں کے پانیوں میں کاربن بھرتے ہیں۔  یہ کاربن ہم نے ضرورت سے زیادہ بھر دیا ہے۔  ہم نے زراعت اور تعمیر کے لیے بے دردی سے جنگلات کاٹ دیے ہیں۔  مانا کہ خوراک کے حصول کے لیے زراعت ضروری ہے۔ اور یہ بھی مانا کہ  معیار زندگی میں اضافے اور پرآسائش زندگی کے لیے نئی تعمیرات اور ہاوسنگ سکیموں کی ضرورت ہے۔  مگر اس کے لیے جتنے درخت کاٹے جائیں اتنے ہی درخت لگانے کا سخت قانون بھی بنایا جا سکتا ہے۔  مگر ارباب اختیار کی  بے حسی یاعدم غفلت کی وجہ سے اس باب میں قابل ذکر قانون سازی یا انتظام موجود نہیں ہے۔ 

 جنگلات کی تباہی اور صنعتی سرگرمیوں کی وجہ سے ماحول میں کاربن ڈائی اکسائڈ کی مقدارخطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔  کاربن ڈائی اکسائڈ کوپی پی ایم سے ناپا جاتا ہے۔  سادہ زبان میں پی پی ایم  پارٹس پر پارٹسفارمولہ ہے۔  دو سوبرس قبل ماحول میں کاربن دو سواسی پارٹس فی ملین تھی۔  آج یہ مقدار چارسو پارٹس فی ملین سے تجاوز کرچکی ہے۔  یہ حجم اوررفتاردونوں اعتبار سے ناقابل تصوراضافہ ہے۔

   ہم سب جانتے ہیں کہ فضائی آلودگی کی نمایاں ترین وجوہات میں سے ایک توانائی کے حصول کی خاطر کوئلے، تیل، لکڑی، گیس کا استعمال ہے۔  ان چیزوں کے استعمال سے جو فضائی آلودگی پھیلتی ہے یہ کورونا سے کتنی زیادہ خطرناک ہے ؟ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری دنیا میں ہردس اموات میں سے ایک موت کی وجہ یہ آلودگی ہے۔  آلودگی سے بچنے کے لیے راکٹ سائنس کا علم یا بہت بڑے وسائل کی ضرورت نہیں ہے۔

  توانائی کے حصول کے متبادل ذرائع اورمطلوبہ ٹیکنالوجی موجود ہے، جو مروجہ ٹیکنالوجی سے بھی سستی پڑ سکتی  ہے، اگر اس سلسلے میں دوسرے کچھ کامیاب ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکے تو۔  سولرپینل، ونڈ ٹربائن اس کی مثالیں ہیں۔  مگرتوانائی کے روایتی وسائل سے جن عالمی اورمقامی طاقتوراوربااثرطبقات کے مفادات وابستہ ہیں، وہ توانائی کے نئے ذرائع اورٹیکنالوجی کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔  جو وسائل کے جس حصے پر قابض ہے، وہ اس پراپنا قبضہ برقراررکھنے پربضد ہے، اوروسائل کی منصفانہ تقسیم کے خلاف ہے۔

جنگلات کی تباہی ایک خوفناک عمل ہے، جو بے رحمی سے جاری ہے۔ ہر سال دنیا میں اٹھارہ ملین ایکٹر سے زیادہ جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔  اس وقت دنیا میں کل رقبے کےصرف تیس فیصد پرجنگلات باقی رہ گئے ہیں ہیں۔  گیارہ ہزار سال قبل جب کھیتی باڑی کا آغاز ہوا تو دنیا میں ساٹھ فیصد رقبے پرجنگلات تھے۔  جنگلات اور فضائی آلودگی میں تعلق یہ ہے کہ جنگلات کاربن کو جذب کرتے ہیں، جس سے فضائی آلودگی کم ہوتی ہے، اوریہ بات ہم سب پہلی یا دوسری جماعت میں پڑھ چکے ہیں۔  لیکن ہمارے سامنے ہر روز درخت کٹتے ہیں، اور انسان حیرت و افسوس سے دیکھتا ہے کہ ریاست و قانون خاموش تماشائی ہی نہیں،  بسا اوقات سہولت کار بھی ہے۔

 ہمارے اردگرد باَئیوڈائی ورسٹییعنی حیاتی ناظم میں تنوع ختم ہو رہا ہے۔  جنگلی حیات اوران کے ٹھکانے تباہ ہو رہے ہیں۔ کئی جانوروں اور پودوں کی اقسام معدوم ہو رہی ہیں ۔زمین کا انحطاط  ماحولیات کاایک سنگین مسئلہ ہے۔  ایک اندازے کےمطابق ہرسال بارہ ملین ایکڑ زرعی زمین ڈی گریڈیشن کا شکار ہوتی ہے۔  انسان کو خوراک کی ضمانت  دینے کے لیےزمین کواچھی حالت میں رکھنا ضروری ہے، اس کے لیے راستے اورطریقے موجود ہیں، جو دنیا کی دوسری اقوام آزما چکی ہیں۔

آبادی میں اضافہ فضائی آلودگی اورماحولیاتی تباہی میں اہم عنصر ہے۔ اس وقت دنیا میں سات ارب پچیس کروڑ لوگ بستے ہیں۔  اگلے تیس برسوں میں یہ تعداد دس ارب تک پہنچ جائے گی۔  یہ تعداد پانی  کی قلت سمیت کئی مسائل پیدا کر دے گی۔  یہاں ایسا ماحول ہوگا،  جیسے ایک لفٹ میں پچاس لوگوں کو بند کر دیا جائے۔  یہ زمین جس پرہم رہتے ہیں صرف ایک ہے۔  اور ہم سب لوگ اسے حصوں بخروں میں تقسیم کرنے  کے باوجود مشترکہ طورپرستعمال کر رہے ہیں۔  اس کی حفاظت انسان کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔  آج ہم کورونا سے ڈرکراپنےاپنے بلوں میں گھس سکتے ہیں ، مگراگرماحولیاتی تباہی کا موجودہ عمل جاری رہا تواس وقت کیا ہوگا، جب ہمیں اپنے بلوں میں بھی چھپ کربیٹھنے کے لیے آکسیجن دستیاب نہیں ہوگی ۔

Comments are closed.