کچھ ساجد حسین کے بارے میں


علی رفاعی

مشہور فلاسفی ہاییڈ یگر انسان کی دنیا میں موجودگی کی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے۔

Man is aboundones in this world .He has been thrown into this world 

(آدمی کو اس دنیا میں دھکیل دیا گیا ،یا پھینک دیا گیا ہے)

اس دنیا میں دھکیلنے کے بعد آدمی کو جن آلائم، تردو،دہشت لامکانی،  بیگانگی اور احساس جرم یا گنا ہوں سے سابقہ پڑتا ہے۔ 

سارتر نے نازی ازم کے خلاف مزاحمت میں حصہ لیا  الجیریا کی آزادی کے جنگجوؤں کا فرانس کے خلاف ساتھ دیا ۔فرانس کی پرولتاری تحریک میں شمولیت اختیار کی ۔

سارتر کا تعلق جن سے رہا اور ساجد کا تعلق جن سے رہا ان دونوں میں زمیں آسمان کا فرق ہے۔سارتر فرانس کے کسی شہر کے کسی چائے خانے میں گھنٹوں بیٹھ کر لکھ سکتے تھے، لیکن ساجد کے ساتھ ایسا ممکن نا تھا کیونکہ ساجد کی جنگ ایک غیر مہذب ریاست سے تھی جو چائے خانہ کجا اپنے ہی گھر کے چاردیواری سے اٹھا کر غائب کرکے پھر مسخ شدہ لاش ویران پھینک دیا جاتا ہے۔

ساجد  کے ساتھ میں نے  چند کمپین میں ایک ساتھ کام کیا، جن میں ڈاکٹر اللہ نذر ،اختر ندیم کی بازیابی اور ڈاکٹر حنیف شریف کی گمشدگی کے حوالے سے سرگرمیاں شامل تھی۔

ساجد  کافی کم گو اور محتاط تھے ان کا زیادہ تر وقت  لکھنے پڑھنے میں گزرتا تھا ۔

کراچی میں اللہ اکبر ھوٹل میں شہید غلام محمد بلوچ کے سے بیٹھک میں کبھار شریک بھی ہوا کرتے تھے لیکن  ہماری طرح وہ رات دیر تک باہر نہیں گذارتے ۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے جب شہید غلام محمد کو کراچی پریس کلب کے سامنے سے پولیس نے گرفتار کرکے نامعلوم پولیس اسٹیشن میں لے جایا گیا تو انھیں ڈھونڈنے کے لیے  ہمارے ساتھ ساجد بھی شریک  تھے ۔

ساجد کے ساتھ میرا رابطہ اس وقت منقطع ہوا جب مجھے کراچی چھوڑنا پڑا  ،بعد میں معلوم ہوا کہ ساجد افریقہ کے کسی ملک میں کسی این جی اوز کے ساتھ ایک پراجیکٹ پر کام کرر ہے ۔ پھر پتہ چلا ساجد خلیج منتقل ہوگئے ہیں  ۔  ہمیشہ دوستوں کو کہتا تھا کہ ساجد سیلانی بن چکا ہے،  اصل میں ساجد اندر ایک سیلانی فقیر بسا تھا ، ساجد آزادی کو چھونے کی تگ و دود میں لگا تھا۔ کیونکہ ساجد نے غلامی میں آنکھ کھولی اور غلامی میں ہی جواں ہوئے،  

بقول میر کہ

کل سیل سا جوشاں جو ادھر آیا میر

سب بولے کہ یہ فقیر سیلانی ہے

ساجد جب سوئیڈن پہنچے تو مجھے کافی وقت کے  بعد معلوم ہوا کہ ساجد سوئیڈن میں ہے۔  شائد ایک دو مرتبہ ان سے میسج کے ذریعہ رابطہ ہوا۔

مارچ میں سوشل میڈیا میں ساجد کی گمشدگی کی خبر ملی ، مجھے حیرانگی بھی ہوئی کہ یورپ میں اور وہ بھی سوئیڈن میں گمشدگی والی بات ہضم نہیں ہورہا تھا۔ اس کے بعد منحوس خبر ملی کہ ساجد مردہ حالت میں ایک دریا کے اندر سے برآمد ہوئے ۔

ساجد آج ہم میں نہیں لیکن ساجد نے اپنی انتھک کوشش سے اپنی ایک پہچان بنا دیا ہے۔

 

Comments are closed.