قصہ موٹی ویشنل سپیکرز کا

لیاقت علی

جنرل ایوب خان کی حکومت قائم تو تھی لیکن اس میں دراڑیں پیدا ہوچکی تھیں۔ عوام کے جمہوری مطالبات کی آواز روز بروز بلند ہورہی تھی اس دوران عوام کو خوش خبری دی گئی کہ امسال غلاف کعبہ تیارکرنے کا شرف پاکستان کو حاصل ہوگا۔ حکومت نے اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی اور ایک دن غلاف کعبہ کی تیاری کا مژدہ سنایا گیا۔ چنانچہ غلاف کعبہ تیار ہواتو ساتھ ہی اس کی شہر شہر نمائش کا بھی اہتمام کردیا گیا۔

لاہور کے حضوری باغ میں چند دن کے لئے ا س غلاف کو بغر ض نمائش رکھا گیا اور نہ صرف لاہور بلکہ دور دراز سے عوام غلاف کے دیدار کے لئے آنا شروع ہوگئے۔پاکستان کا تیار کردہ غلاف کعبہ ان بہت سے غلافوں میں سے ایک تھا جن کی تیاری کا آرڈر سعودی حکومت مختلف ممالک کے اداروں کو دیا تھا لیکن جنرل ایوب خاں کی حکومت یہ تاثر دے رہی تھی کہ یہ اعزاز صرف پاکستان ہی کو حاصل ہوا ہے۔ بعد ازاں یہ غلاف کعبہ سعودی عرب کی حکومت نے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا کیونکہ وہ ان کے معیار پر پورا نہیں اترا تھا لیکن جنرل ایوب خان کا مشن پورا ہوگیا تھا کہ انھوں نے کئی ماہ تک عوام کو غلاف کعبہ کی زیارت کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا تھا۔

جنرل یحیی خان کا مارشل لا پورے جاہ جلال کے ساتھ ملک پر مسلط تھا۔ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد تھی۔ سیاسی جبر کے اس موسم میں پاکستان کے منظر نامہ پرزہرہ فومانام کی ایک انڈونیشین عورت نمودار ہوئی اوردعوی کیا کہ وہ حاملہ ہے اور اس کے پیٹ میں موجود بچہ قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔ ہر طرف اس کے اس دعوی کی دھوم مچ گئی۔ ہرخاص وعام پیٹ میں موجود بچے کی تلاوت سننے کے لئے نکل پڑا۔

جماعت اسلامی اس عورت کی مقامی ہینڈلربن گئی اور ملک کے مختلف شہروں میں اس کی ’رونمائی‘ کا ڈرامہ شروع ہوگیا۔ یحیی خان کی حکومت نے پس پشت رہ کراس عورت کی جملہ ضرورتوں کا بھرپور خیال رکھا۔ جب وہ عورت بادشاہی مسجد لاہورمیں آئی تولاہور کے باسیوں کا وہ اژدھام تھا کہ خدا کی پناہ۔ بادشاہی مسجد کا انتظام وانصرام نہ صرف اب بلکہ اس وقت بھی حکومت پنجاب کے پاس تھا اوراس میں کوئی جلسہ اورتقریب کاانعقاد محکمہ اوقاف کی پیشگی اجازت کے بغیر ممکن نہیں تھا اور نہ اب ہے۔

زہرہ فوما کا بادشاہی مسجد میں آنا اور حاضرین کو پیٹ میں موجود بچے کی تلاوت سنوانے کے اس سارے ڈرامے کو فوجی حکومت کی خاموش تائید وحمایت حاصل تھی۔ کچھ عرصہ بعد یہ راز کھلا کہ زہرہ فوما تو حاملہ ہی نہیں تھی اوراس کے پیٹ میں تلاوت کرنے والا بچہ دراصل ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر تھا جواس نے اپنے جسم کے مخصوص حصے میں فٹ کیا ہوا تھا۔ اس سارے ڈارمے کو پرموٹ کرنے والا کوئی مولوی نہ شرمسار ہوااورنہ ہی اس پرکسی نےمعذرت کااظہار کیا تھا۔

بھٹو اپنے عہد حکومت میں سعودی عرب سے خانہ کعبہ کے امام کو وقتا فوقتا مدعو کیا کرتے تھے اورسعودی عرب کے یہ سرکاری ملازم امام ہزاروں پاکستانی مقتدیوں کو اسلام کے نام پربے وقوف بنا کراورحکومت پاکستان کی مہمان نوازی مزے لوٹ کر واپس تشریف لے جاتے تھے۔

جنرل ضیا نےعوام کو جمہوری جدوجہد سے باز رکھنے کے لئے کئی طریقے اختیار کیے تھے۔ طویل دورانیے کے ٹی وی ڈرامے جو بالاہتمام دکھائے جاتے تھے،لائیو کرکٹ میچزاور رنگا رنگ مولوی صاحبان کے دروس قرآن۔ان سب کا مقصد ایک ہی تھا کہ جس قدرممکن ہوسکے عوام کو سیاسی اورسماجی حقوق کی جدوجہد سے دوررکھا جاسکے۔

جنرل ضیا کے دوراقتدار میں یکا یک ایک پیرسپاہی نمودار ہوئے اورہر طرف چھا گئے۔وہ جہاں جاتے ہزاروں لوگ ان کے انتظار میں کھڑے ہوتے تھے۔ ایک دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ وہ لاہور ریلوے اسٹیشن پر ٹرین سے اترے اور انھوں نے لاوڈ سپیکرز سے اعلان کیا کہ جوشخص جہاں کھڑا ہے وہ وہیں کھڑا رہے اور اپنی پانی کی بوتل کا ڈھکن کھول دے اوراس نے لاوڈد سپیکرز پر پھوک مار کر سب بوتلوں کے پانی پر دم کردیا ہے۔

پیر سپاہی کا دعوی تھا کہ اس کا دم کیا ہوا پانی سب بیماریوں کے لئے باعث شفا ہے۔ بعد ازاں پتہ چلا کہ پیر سپاہی توڈھونگی تھا اورپولیس سے ڈسمس ہوچکا تھا۔ پیر سپاہی کی اس واردات کو ہماری نادیدہ قوتوں کی تائید و حمایت حاصل تھی وگرنہ وہ اتنا بڑا ڈرامہ مارشل لا کے دورمیں کرنے کی جرات نہیں کرسکتا تھا۔

اب کچھ عرصے سے موٹی ویشنل سپیکرزکا بہت چرچا ہے۔یہ موٹی ویشنل سپیکرز دراصل ان بابوں کی مانند ہیں جو اپنےارد گرد بیٹھےافراد کو انعامی بانڈز کا وہ نمبر دیتے ہیں جس پر انعام نکلنا ہوتا ہے لیکن خود اس نمبرکا بانڈ نہیں لیتے۔ان بابوں کے انعامی بانڈزان کے اردگرد بیٹھے بے وقوف ہوتے ہیں جن کی جیبوں سے وہ نمبر بتانے کا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔

اب ٹی وی چینلزپرایک نیا معجزہ چائلڈ برین زیدان حامد متعارف کرایا گیا ہے جسے سب کچھ معلوم ہے اور جس کے پاس ہر سوال کا جواب موجود ہے۔ وہ ہر بیماری اورمصیبت کی دعا جانتا اور بتاتا ہے۔ ہمارے سب کچھ جاننے والے اینکرز اس کے سامنے مریدوں کی طرح بیٹھےاس کا منہ تک رہے ہوتے ہیں۔یہ عظیم برین سائنس میں منہ نہیں مارتا کیونکہ وہاں ایکسپوز ہونے کا فوری خطرہ ہوتا ہے اس لئے وہ الہیات اور سماجی علوم پر ہاتھ صاف کرتا ہے۔

زہرہ فوما، امام کعبہ، پیر سپاہی اور زیدان حامد ہماری حکمران اشرافیہ کے ہتھکنڈے ہیں جن کی مدد سے وہ عوام کے شعور کو کند کرنے اور انھیں سیاسی حقوق اور سماجی انصاف کی جدوجہد سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہے۔ جوں ہی ان کا متعارف شدہ کوئی ایک معجزہ اور جینیس ایکسپوز ہوتا ہے وہ ایک نیا ڈرامہ اور کوئی نیا شعبدہ باز تیار کرکے لانچ کردیتی ہے۔

One Comment