خڑ کمر واقعے کے آشکارا راز

ایمل خٹک 

پاکستان کی سیاسی تاریخ بالعموم اور پشتونوں کی بالخصوص سیاسی واقعات سے بھری پڑی ہے جو عوام حقوق اور حاکمیت کے لیے کی جانے والی ان تھک جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کی لازوال داستانیں ہیں۔ خڑ کمر شمالی وزیر ستان کا واقعہ بھی بابڑہ کے واقعے کی طرح ایک ناقابل فراموش سیاسی سانحہ ہے۔ گذشتہ سال 26 مئی کو واقع ہونے والے اس خونی اور سیاہ واقعے کے خلاف ایک ہی دن پاکستان کے علاوہ نارتھ امریکہ اور یورپ کے اہم شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔

خڑ کمر کا واقعہ کیا ہے؟ جب شورش زدہ علاقے میں دہشت گرد کاروائی ہوتی ہے تو اس کے فورا بعد سیکیورٹی فورسز سرچ آپریشن شروع کرتی ہے ۔ علاقے کو گھیرے میں لے لیا جاتا ہے غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کیا جاتا ہے گھر گھر تلاشی لی جاتی ہے اور عملا ہر شہری کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں عوام گونا گوں مشکلات اور مسائل سے دوچار ہیں اور بے شمار شکایات کا انبار ہے۔

عوامی مشکلات اور مسائل کو سمجھنے کے لیے گذشتہ پیر کے روز ، عیدک، شمالی وزیرستان میں سرکاری گاڑی پر ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ کی مثال لیں۔دھماکہ میں ایک فوجی ہلاک اور تین زخمی ہوئے ۔ دھماکہ کے فوراً بعد راہ چلتے راہ گیروں اور گاڑیوں پر اندھا دھند فائرنگ ہوتی ہے۔ کوچ ڈرائیور موقع پر ہلاک اور مسافر زخمی ہوتے ہیں۔ قریبی مدرسہ میں گھس کر مسجد کے اندر اعتکاف میں بیٹھے افراد پر فائرنگ سے ایک شہری ہلاک اور کئی زخمی ہوجاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر عینی شاہدین مثلا زخمیوں کے ویڈیوز اور آڈیوز موجود ہیں۔

خڑ کمر شمالی وزیرستان کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ علاقہ ڈوگہ مچھ مداخیل کے رہائشیوں کو سرچ آپریشن کے دوران غیر انسانی سلوک اور زیادتیوں کی شکایات تھیں۔ عوام نے سیکیورٹی فورسز کی زیادتیوں کے خلاف 25 مئی کو 2019 کو دھرنا دیا۔اگلے دن علاقے کا ایم این اے محسن داوڑ ایک اور ساتھ ایم این اے علی وزیر کے ہمرا مظاہرین کی فریاد سننے اور داد رسی کی غرض سے ان کے پاس جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے تو ان کو آگے جانے نہیں دیتے جب وہ آگے بڑھتے ہیں تو پھر قریبی چیک پوسٹ سے ایم این اے کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جاتی ہے۔

سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے چودہ افراد ہلاک اور چوبیس زخمی ہوئے۔ علی وزیر ایم این اے کا موقع پر گرفتار کیاجاتا ہے جبکہ محسن داوڑ کو بعد میں۔ سرکار کا دعویٰ تھا کہ مظاہرین نے سیکیورٹی فورسز پر حملہ کیا مگر حملے میں نہتے شہری تو مارے گئے مگر فورسز کا ایک بندہ زخمی تک نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ شمالی وزیرستان میں اب عوام کے پاس اسلحہ نہیں ہے۔ فوجی آپریشن کے دوران عوام سے اسلحہ واپس لے لیا گیا تھا۔

اس واقعے کے حوالے سے بہت سے سوالات جواب طلب ہیں۔ دنیا بھر میں سیکیورٹی فورسز پر حملہ ایک سنگین جرم سمجھاجاتا ہے اور ایسے حملے کرنے والوں کو سخت سزائیں ملتی ہیں۔ اس طرح اگر حملہ بیرونی سازش ہو یا اس میں بیرونی ہاتھ ملوث ہو تو اسے بے نقاب کیا جاتا ہے۔ مگر بیرونی سازشیں بے بنیاد الزامات اور بھونڈے پروپیگنڈے سے نہیں ٹھوس حقائق سے بے نقاب ہوتی ہیں۔ پاکستانی عوام اور عوامی نمائندے بار بار اس واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں اور اس سانحے کی برسی پر بھی یہی مطالبہ دھرایا جارہا ہے۔

اگر سیکیورٹی فورسز پر حملے کی جھوٹی کہانی کو سچ مان بھی لیا جائے تو ریاست کے پاس تمام ذرائع موجود ہیں اور پرزور عوامی مطالبہ بھی ہے کہ اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائے تو پھر اس سے اجتناب کیوں؟ سانحے میں ہلاک اور زخمی باغی شہریوں کے لیے معاوضے کا اعلان کیوں کیا گیا؟ دو منتخب اراکین اسمبلی جو مظاہرین کی داد رسی کے لیے جاتے ہیں انہیں گرفتار کیا جاتا ہے جبکہ فائرنگ کرنے والے مظاہرین کا کیا بنا؟اتنے بڑے واقعے کی عدالتی کاروائی کس مرحلے پر ہے؟ پشتون تحفظ موومنٹ کے علاوہ ملکی اور بین القوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی واقعے کی آزادانہ اور غیر جانبدارنہ تحقیقات کے مطالبے کے باوجد اس سے گریز کیوں اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے سے کون ڈررہا ہے؟

ایسے واقعات کے حوالے سے تین ریاستی رویے اہم ہیں۔ ایک تو ان سانحات کی آزادانہ تحقیقات سے گریز کیا جاتا ہے اور الٹا ان واقعات اور حقائق کو دبانی کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ دوسرا ریاستی ادارے ان سانحات سے سبق سیکھنے اور عوامی مسائل اور مشکلات کو مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے اور ان کی مناسب دادرسی کی بجائے طاقت کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں۔ تیسرا عموماً ایک بلنڈر یعنی فاش غلطی کو چھپانے کے لیے کئی اور فاش غلطیاں کی جاتی ہیں جس سے معاملات حل ہونے کی بجائے مزید سنگین اور عوامی غم و غصے میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے ابھرنے کی ایک اہم وجہ شورش زدہ علاقوں میں دہشت گرد کاروائیوں کے بعد سیکیورٹی فورسز کا عوام کے ساتھ غیر انسانی اور ہتک آمیز رویہ بھی تھا۔ اور سرچ آپریشن کے نام پر عوام کو بے جا تنگ کرنے اور سیکیورٹی فورسز کی زیادتیوں کا خاتمہ پی ٹی ایم کا اہم مطالبہ ہے۔ اگر پی ٹی ایم کو بزور دبانے کی بجائے اس کو سنجیدگی سے سنا جاتا اور اس کے مطالبات کی مناسب شنوائی ہوتی تو خڑ کمر واقعے جیسے واقعات نہ ہوتے۔ ہٹ دھرمی کی وجہ سے ریاست نہ تو عوامی مطالبات سننے کے لیے تیار ہے اور نہ اصلاح احوال کے لیے۔

طاقت کے گھمنڈ اور نشے میں ریاستی ادارے شہریوں کے بنیادی حقوق اور مسلمہ اصول انصاف سے روگردانی یا قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ عوام سنگین زیادتیاں اور بے انصافیاں بھولتے نہیں اور یہ ناخوشگوار واقعات قوموں کے اجتماعی شعور کا حصہ بن جاتے ہیں اور مدتوں یاد رہتے ہیں۔ انگریز سامراج نہیں رہا مگر قصہ خوانی کے شہدا کی یادیں تازہ ہیں۔ سانحہ بابڑہ کے ذمہ دار کردار نہیں رہے مگر شہدا بابڑہ کا دن ہر سال منایا جاتا ہے۔

Comments are closed.