زبان یار من ترکی اور قوم کباب کی لن تران ٹھرک بازی

حسن مجتبیٰ

اب کا نہیں معلوم لیکن  ماضی  قریب تک سندھ کی مسجدوں میں اب تک بھی جمعے کے خطبے میں ترکی کے خلیفے کی درازی عمر کی دعائیں مانگی جاتی تھیں۔جبکہ صدیاں بیتی خلیفہ کو فوت ہوئے۔ پھر ہمارے جرنیل بقول بھٹو ترکی ماڈل کی مثالیں دینے  کے  شوقین ہیں۔خود بھٹو سے لیکر پرویز مشرف تک سب کے سب سول ہوں کہ فوجی حکمران کمال اتا ترک سے متاثرہوتے  تھے۔ ہم نے بچپن میں نصابی کتابوں میں کمال اتا ترک پر سبق بھی پڑھے۔

کمال اتا ترک کی یادگار آج بھی لاڑکانہ کے چوک پر نصب ہے۔جس پر دل جلوں نے تب لاڑکانہ کو پیرس کہا تھا بھٹو کے دور میں۔ اب تو بھٹو کے نام پر حکومت کرنے والوں نے لاڑکانہ کی درگت بدین کی مٹ (پیشاب) اسپتال جیسی بنائی ہوئی ہے۔

حالانکہ کمال اتا ترک نے جو بربریت اور نسل کشی کردوں سے کی یا آرمینیوں  کے ساتھ ہوا اس سے انسانیت لرزہ ہوئی ہے۔

نہ لیا تو ترکی سے سبق اسکے سیکیولر معاشرے کا نہیں لیا جہاں رمضان میں شراب بھی خا ص رعایت پر بکتی ہے۔ نہ وہاں کے صوفی اسلام سے کچھ سیکھا۔ نہ پھر یہ بھی کہ کیسی بھی حکومت ہو لیکن چنی ہوئی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کی کوشش کرنیوالی فوج سے ترک عوام نے “جن کو ڈھاکہ کی گلیوں میں جوتے پڑے” والا کام کیا۔

ترکی سے پاکستانیوں کی دوستی کی مثالیں دینے والے پاکستانی حکمران یکے بعد دیگرےیہ کیوں بھول جاتے ہیں ترکوں سے پاکستان کے اچھے مراسم میں سب سے بڑا ہاتھ ذوالفقار علی بھٹو کا تھا۔ وزیر خارجہ ہونے کے دنوں ۔ جب وہ جنرل گرسل کو یہ سمجھانے گیا تھا کہ ترکی کا بحران وزیر اعظم عدنان میندرس کو پھانسی دینے سے ختم نہیں ہوگا بلکہ شروع ہی تب ہوگا۔

کسے یا اسے بھی کیا خبر کہ محسن کش جنر ل اپنے وزیر اعظم بھٹو کوبھی پھانسی چڑھا دینگے۔اب چین کے بعد ایک اور مطلق العنان اردگان جس نے اپنے سینکڑوں سیاسی مخالفین، انسانی حقوق کے کارکنوں، کرد قوم پرستوں، صحافیوں کو قید وتشدد میں رکھا ہے۔قتل و غائب کر چکا ہے انٹیلیجنس ریپبلک آ ف غائبستان و الباکستان میں پاپولر ہے۔ اور اب ارتغرل

ایسا بھی نہیں کہ میں ترکی کو پسند نہیں کرتا۔ میں اس ترکی سے محبت کرتا ہوں جو اورہان پاموک اور اسکی کتابوں ،ناولوں میں ہے۔ جو ترکی الف صق کی تخلیقات میں ہے۔ جو ناظم حکمت کی غیر کمیونسٹ شاعری میں ہے۔ یا اس کی قیدخانے کی شاعری میں:۔

قید خانے کی دیواروں کو درد زہ ہوا

اور میری نظمیں پیدا ہوئیں۔ وے ترکی جہاں “ حضرت مولانا “اسکا قونیا، پھرتے گھومتے رقاص درویش ہیں۔ سیکیولر ترکی۔ صوفی ترکی۔ اتاترک کے نام نہاد سیکیولر ازم نے پہلا وار درویشوں پر کیا تھا۔وہ ترکی جو میں نے جرمن میں ترک اور کرد خوبصورت لڑکوں اور لڑکیوں کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔بقول حافظ

اگر ان ترک شیرازی بدست ارد دل مارا
بہہ خال ھندویش بخشم سمرقند و بخار را

جو اپنے ناول “سرخ بالوں والی عورت” میں اسکی ہیروئین کے حسن کا نقشہ اورہان پاموک نے کھنچا ہے اس سے نہ ارتغزل والی باجی حلیمہ پہنچے نہ ہمارے والی ۔

Comments are closed.