یہ کام کسی نے بھی کیا ہو، انگلیاں تو سکیورٹی اداروں پر ہی اٹھیں گی

عارف وزیر پشتون تحفظ موومنٹ کے سرکردہ رہنما اور قومی اسمبلی کے رکن علی وزیر کے چچازاد بھائی تھے جنہیں جمعہ یکم مئی کو مغرب کے وقت نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا تھا۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے ایک رہنما عارف وزیر کو جمعہ یکم مئی کو مغرب کے وقت نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا تھا۔ وہ آج اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے۔
عثمان وزیر جنوبی وزیرستان کے مرکزی شہر وانا کے تھانہ میں ایس ایچ او ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عارف وزیر کو چند دن پہلے انہوں نے تھانہ بلایا تھا کیونکہ ان سے کچھ معلومات لینا تھی۔ عارف وزیر نے افغانستان میں پاکستان مخالف تقریر کی تھی جس پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ ایس ایچ او نے کہا کہ عارف وزیر اکیلے تھانے آئے تھے اور ہمیں جو معلومات لینا تھی اس پر ان سے بات چیت ہوئی۔ 
ایس ایچ او نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا کہ جمہ یکم مئی کو  افطاری سے چند منٹ پہلے عارف وزیر اپنے گھر کے قریب واقع دکان سے گھر جا رہے تھے کہ کالی شیشوں والی فیلڈر گاڑی سے ان پر فائرنگ ہوئی جس سے وہ زخمی ہوئے۔ عارف وزیر کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے شخص نے بھی اس گاڑی پر فائرنگ کی جس سے فائرنگ کرنے والی گاڑی کو نقصان پہنچا۔ عثمان وزیر کے مطابق پولیس نے گھر گھر سرچ آپریشن شروع کر رکھا ہے اور چوکیوں پر پولیس اور ایف سی نے چیکنگ سخت کر دی ہے تاکہ اس واقعے میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جا سکے۔ وانا تھانے میں عارف وزیر پر فائرنگ کی نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی ار درج کی گئے ہے۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی نصیر اعظم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وانا وزیرستان کا اہم علاقہ ہے جہاں فرنٹیئر کور، پاکستان آرمی اور پولیس سمیت دیگر اہم سکیورٹی ادارے موجود ہیں اور مقامی لوگوں کو بارہا یہ باور کرایا گیا ہے کہ تمام علاقے کلیئر ہوئے ہیں اور اس کے باوجود بھی کالے شیشوں والی ایک گاڑی آ کر علاقے کی ایک اہم شخصیت کو ٹارگٹ کرتی ہے، یہ ایک تشویش ناک بات ہے: ’’یہ کام کسی نے بھی کیا ہو، انگلیاں تو سکیورٹی اداروں پر ہی اٹھیں گی کیونکہ وہ خود دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے علاقہ کلیئر کیا ہے اور اس کے باوجود بھی ایسے واقعات کا ہونا سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان تو ہے‘‘ ۔

پشتون تحفظ مومنٹ کے کئی اراکین اور رہنماؤں نے ٹویٹس اور سوشل میڈیا پیغامات میں پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں کو عارف وزیر کے قتل میں ملوث کرنے کے الزامات لگائے ہیں۔36 سالہ عارف وزیر گزشتہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں دوسرے نمبر پر آئے تھے اور انہوں نے کورٹ میں انتخابات میں دھاندلی کی درخواست دی تھی۔ درخواست میں بیان کیا گیا ہے کہ تین پولنگ اسٹیشنز پر خواتین کے نوے فیصد سے زیادہ ووٹ پول ہوئے جو وزیرستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا ہے۔ وزیرستان میں خواتین بہت ہی کم گھروں سے نکلتی ہیں۔

وانا میں عارف وزیر پر فائرنگ اور اب ان کے انتقال کے بعد خوف وہراس پھیل گیا ہے اور مقامی لوگ عارف وزیر کے گھر میں تعزیت کے لیے آ رہے ہیں۔ مقامی لوگوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عارف وزیر کا جسد خاکی پوسٹ مارٹم کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان لایا جائے گا اور بعد میں وانا میں ان کے آبائی قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔

DW

Comments are closed.