پاکستان: فوجی جرنیل سول عہدے کیوں سنبھال رہے ہیں؟

پاکستان کی طاقتور فوج کے اہلکاروں نے گزشتہ دو برسوں میں متعدد سویلین عہدے سنبھال لیے ہیں۔ ماہرین کے خیال میں وزیراعظم عمران خان کی سویلین حکومت اپنی ذمہ داریاں فوجی جرنیلوں کے حوالے کر رہی ہے۔

پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے حالیہ حادثے نے اس بحث کو جنم دیا ہے کہ آیا فوجی افسران کو اہم شہری ملازمتوں پر کام کرنا چاہیے یا نہیں۔ کراچی میں 22مئی کو 91 مسافروں اور آٹھ عملے کے افراد پر مشتمل ایک طیارہ جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے قریب ایک رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا۔ لاہور سے کراچی جانے والی اس پرواز میں سوار ستانوے افراد ہلاک ہوگئے جبکہ دو افراد معجزانہ طور پر بچ گئے۔

ابتدائی تفتیش کے بعد بتایا گیا ہے کہ پائلٹ کی جانب سے لینڈنگ کی پہلی ناکام کوشش کے دوران طیارے کے دونوں انجنوں کو زمین سے ٹکرانے کی وجہ سے کافی نقصان پہنچا تھا۔ تاہم بعض اطلاعات کے مطابق یہ طیارہ لاہور سے پرواز بھرنے سے قبل ہی خراب حالت میں تھا۔

اس وجہ سے چند لوگوں نے پاکستان کی سرکاری ایئر لائن پی آئی اے کے انتظامی معاملات پر سوالات اٹھانا شروع کر دیے اور پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے عہدے پر فائز ایئر مارشل ارشد ملک کی استعفی کا مطالبہ بھی کر دیا۔ سن 2018 میں وزیراعظم  بننے کے دو ماہ بعد ہی عمران خان کی جانب سے انہیں اس ادارے کی سربراہی کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔

ماضی میں ایک عمدہ فضائی کمپنی کے طور پر جانی جانے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن گزشتہ کئی برسوں سے بہت بڑے معاشی نقصانات اٹھا رہی ہے۔ غیر معیاری سروس اور پروازوں کی آمد اور روانگی میں تاخیر کی وجہ سے مسافر مبینہ طور پر شکایات کرتے ہیں۔ پی آئی اے کی قسمت بدلنے کی ذمہ داری ایئر مارشل ارشد ملک کو سونپ دی گئی۔پاکستان میں عموماﹰ یہ خیال پایا جاتا ہے کہ سیاستدانوں کے برعکس فوجی کرپٹ نہیں ہوتے اور وہ اداروں کو مؤثر انداز میں چلا سکتے ہیں۔ لیکن بعض افراد اس رائے سے متفق نہیں اور ان کے خیال میں فوج اہم ترین سول عہدوں پر قبضہ کر رہی ہے اور پسِ پردہ عملی طور پر حکومت کی باگ ڈور سنبھال رہی ہے۔

گزشتہ ماہ وزیر اعظم خان نے فردوس عاشق اعوان کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کے عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ ایک ریٹائرڈ فوجی جنرل عاصم سلیم باجوہ کو اس عہدے پر تعینات کر دیا تھا۔ اس سے پہلے جنرل (ر) سلیم باجوہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر‘ کے سربراہ رہ چکے ہیں۔

اس پیش رفت کے بارے میں جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگلمان نے ستائیس اپریل کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،  یہ پاک فوج کا تازہ ترین اشارہ ہے کہ وہ بلاواسطہ اور بالواسطہ پالیسی سازی میں اپنے کردار کو نمایاں کر رہی ہے‘‘۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجیوں کو متعدد سرکاری اداروں میں عہدے دیے ہیں۔ ان اداروں کی ذمہ داری روایتی طور پر سویلین حکومت کی ہوتی ہیں۔ واضح رہے پاکستانی فوج پر سن 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات بھی عائد کیے گئے تھے۔ تاہم فوج اور وزیراعظم کی جانب سے ان الزامات کو مسترد کیا جاتا ہے۔

ایمسٹرڈیم میں قائم تھنک ٹینک یورپین فاؤنڈیشن آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں پاکستان میں فوج کا اثر و رسوخ کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ اس تھنک ٹینک کے حالیہ تبصرے کے مطابق پاکستانی فوج نے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ اب معیشت، تجارت، داخلی امور، ریلوے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) کے ساتھ ساتھ میڈیا مینجمنٹ کے معاملات پر بھی اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔

لندن میں مقیم پاکستانی محقق عائشہ صدیقہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی ڈھانچہ ایک ہائبرڈ مارشل لا‘ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ صدیقہ کے بقول، مجھے لگتا ہے کہ فوج براہِ راست حکمرانی میں شامل ہونا چاہتی ہے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف فوج کی حمایت کے بغیر ملک نہیں چلا سکتی‘‘۔

صدیقہ کو خدشہ ہے کہ آنے والے برسوں میں فوجی حکام کی جانب سے مزید وزارتوں کو سنبھال لیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوجی جرنیل بظاہر حکومت کے سویلین روپ کو ترجیح دے رہے ہیں حقیقت میں، وہ ہر چیز پر قابو پانا چاہتے ہیں‘‘۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار توصیف احمد خان کے مطابق سابقہ حکومتوں نے پالیسی سازی میں فوجی مداخلت کے خلاف مزاحمت کرنے کی کوشش کی تھی لیکن عمران خان کی حکومت کو بظاہر اس عمل سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

dw.com

One Comment