عرفانہ ملاح، ملا گردی اور خوف کا راج

حسن مجتبیٰ

انہوں نے اس لڑکی کو صلیب پر لٹکا دیا ہے اور کہتے ہیں آؤ اس “گستاخ عورت” کو اتار کر دکھاؤ۔ پورا سندھ خاموش تماشائی ہے۔ پورا ملک چپ ہے۔ اس کے دوست اس کے دشمن۔ سب چپ۔ جیسے سندھ کے صوفی نانک یوسف نے کہا تھا: چپ چپاتی چپ کی بازی میں نہ سمجھی یار چپ (نانک یوسف) لیفٹ رائیٹ۔ لبرل قوم پرست، سیکیولر، دائیں بائیں شائیں سب پر سانپ سونگھ گیا ہو۔ اور یہ سانپ ہے ملک میں عام طور اور سندھ میں خاص طور ملاں گردی اور اسکے منڈلاتے ہوئے خوف کا۔

ملا گردی جس سے سب کانپ رہے ہیں۔ یہ درجن بھر گناہگار عورتیں۔ اس ملک اس صوبے اور آپ کے گھر آپ کی زندگی کی تمام خرابیوں کی ذمہ دار ہیں۔ عرفانہ ملاح ان گناہگار عورتوں کی سرغنہ ہے۔ یہ پدرشاہانہ سندھی سماج میں کئی مردوں سے اکثر سننے کو ملتا ہے۔ یہ ایک معرکہ آرا نوجوان انتہائی پڑھی لکھی اور بہادر عورت۔ کیمسٹری پڑھانے والی، پروفیسر، اپنے خاندان کی پہلی پی ایچ ڈی، ایک مثالی ہائی اسکول ٹیچر کی بیٹی۔ سندھ یونیورسٹی میں شعبہ کیمسٹری کی سربراہ جو سندھ یونیورسٹی ٹیچرس ایسوسی ایشن (سوٹا) کی متواتر منتخب ہوکر صدر رہتی آئی ہے۔

وہ سندھ یونیورسٹی میں دو وائس چانسلروں کی کرپشن کیخلاف یونیورسٹی ٹیچرز اور ملازمین کی سخت جدوجہد کی قیادت کرتی رہی ہے۔ جس میں نوکری سے برطرف بھی ہوئی دھمکیوں سے بھی گذری۔ ایک دفعہ غائب ہوتے ہوتے بچی۔ لکھاری و کہانی کار، سندھ ویمن ایکشن فورم کی سربراہ بھی ہے، اینکر پرسن بھی رہی، ٹی وی میزبان بھی رہی، سیفما کی مرکزی جوائنٹ سیکرٹری بھی رہی اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی فعال و سرگرم رکن بھی ہے۔

عرفانہ ایک نڈر بے باک خاتون جو ا پنے ساتھیوں اور دوستوں کے ساتھ سندھ میں مظلوم عورتوں کے انسانی حقوق، خا ص طور کاروکاری اور گھریلو تشدد، اداراتی جنسی ہراسگی، عورتوں کیخلاف جنسی دہشت گردی کیخلاف، مذہبی اقلیتوں کیخلاف ہونیوالی زیادتیوں پر سندھ کے وسائل پر وفاق کی لوٹ مار پر، جمہوریت پر شب خون پر، اظہار رائے کی آزادی پر قدغن کیخلاف بھرپورو توانا آواز۔ مرد سے مردانہ سماج میں مرد کی زبان میں بات کرنے والی بھی۔

ہر جگہ کڑکتی دھوپ میں،بارش میں سردیوں میں یہ عرفانہ سمیت یہ گناہ گار عورتیں۔ اک گناہ اور سہی کہ انہوں نے خانہ بدوش رائٹرز کیفے کے پلیٹ فارم پر ایسی تمام آوازوں کو یکجا کیا۔ آوازوں سے آوازیں ملیں بے زبان لوگوں کو، خاص طور عورتوں کو بہت بڑی آواز مل گئی۔ بلکہ انکی کمزور آوازوں سے مل کر یہ آواز ایک ہو گئی “۔یہ فیمنسٹ ہیں” جیسا کہ فیمنسٹ ہونا گالی ہو! یہ بدتمیز ہیں، منہ پھٹ ہیں۔ یہ گناہگار عورتیں، مشکوک ہیں۔ کون سی گالی نہیں جو مردانہ ڈکشنری میں ہے اور انکو نہیں ملی۔ اور اب گستاخ رسول کے فتوے۔

بڑے بڑے مرد بننے والے چپ ،پھنے خان چپ۔ کبھی اسے غیر ملکی ایجنٹ کہا گیا تو کبھی ملکی ایجنسیوں کی ایجنٹ۔ کبھی سندھ کی دشمن تو کبھی طالبہ کی خود کشی بھی بناکر قتل میں ملوث کرنے کی کوششیں۔ یہ گناہگارعورتیں اس شام پریس کلب کے باہر احتجاج کرنے اور شمعیں جلانے پہنچی تھیں جس دوپہر گورنر پنجاب سلمان تاثیر قتل ہوا۔ سلمان تاثیر تو انگلی کٹوا کر شہیدوں کی صف میں شامل ہونا چاہتا تھا لیکن سچ مچ کی شہیدوں کی لسٹ میں آگیا۔ اس بے چارے کو تو آسیہ بی بی کے پاس جیل پر پارٹی باس اور صدر آصف زرداری نے بھیجا تھا۔ تاریخ نے اسے پنجاب کا ماڈرن منصور بنانا تھا وہ بالکل بن گیا۔ میرا اسے سلام۔

وہی سلمان تاثیر جس کے باپ دین محمد تاثیر نے علم دین کی لاش پھانسی کے تختے سے اتارے جانے کے بعد علم دین کی میت کو چارپائی دی تھی۔ یعنی کہ علم دین کی میت کی چارپائی تاثیر کے گھر سے آئی تھی۔ خیر۔ سیہون پر قلندر لال شہباز کے مزار پر دہشت گرد تکفیریوں نے بم دھماکے کئے تو اسی ہفتے وہ خواتین اور مردوں کا بڑا گروپ لیکر وہاں پہنچی تھیں اور شیما کرمانی سمیت دھمالیں ڈالی تھیں۔ اسی طرح اس سے قبل وہ شکارپور میں انہی تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں امام بارگاہ پر بم حملے کے تیسرے روز جا پہنچی اور شہر میں آنے ساتھیوں اور کامریڈوں مرد چاہے خواتین کا ایک بڑا جلوس نکالا۔

گھوٹکی میں ہندو برادری کے مندر پر حملے پر مندر میں ان کے ساتھ یکجہتی کو پہنچ گئی۔ جوہی اور کھپرو سمیت سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں عورتوں اور بچیوں کے ساتھ ریپ کے خلاف شہروں میں جاکر تحاریک چلائی۔ متاثرہ غریب خاندانوں کیساتھ کھڑی ہوئی ان کی طرف سے عدالتوں میں مقدمے قائم کیے پولیس میں گئیں۔ عدالتوں میں بچیوں کی طرف سے اپنے پلے سے وکیل کر ا کے سزائیں دلوائیں۔

بالائی سندھ میں کاری قرار دی ہوئی ہوئی جھوٹی غیرت کے نام پر قتل کی ہوئی عورتوں کے الگ سے قبرستان ہیں جہاں وہ بغیر کفن کے زمین برد کی جاتی ہیں۔ یہ گناہگارعورتیں قبرستان میں گئیں اور اپنے باپوں، بھائیوں،شوہروں ،دیوروں حتی کہ قبیلوں والوں کے ہاتھوں ماری گئی ان عورتوں کی قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھائیں۔ تو جب اس سال عورتوں کا عالمی دن آیا تو سندھ ویف والیوں نے بھی تمام سندھ کی عورتوں کو منظم و متحرک کرتے ہوئے سکھر شہر میں (جس کی پسگردائی میں گھوٹکی، خیرپور یا خود سکھر اضلاع نام نہاد غیرت کے نام پر قتلوں کے گڑھ ہیں) میں آٹھ مارچ کو “عورت آزادی مارچ” کا اعلان کیا۔

اس مارچ کو روکنے اور اسکی مزاحمت کرنے کا اعلان جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ سندھ کے صدر راشد محمود سومرو نے کیا۔ جے یو آئی (ف) سندھ ، خاص طور بالائی سندھ میں پی پی پی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے ، اس پارٹی کو اسٹریٹ پاور کے ساتھ ساتھ بڑی حد تک ووٹ پاور حاصل ہے، جیکب آباد، سکھر، لاڑکانہ، شکارپور،گھوٹکی میں انکے اچھے خاصے حلقے ہیں۔ اور یہ پیپلزپارٹی کے نہ فقط کھلے یا خفیہ انتخابی اتحادی بھی ہیں بلکہ جے یو آئی کا ایک آدمی قیوم سومرو پیپلزپارٹی کا سابقہ سینیٹر اور زرداری کا خاص دست راست بھی ہے۔

اس عورت آزادی مارچ کو روکنے کے لیے سکھر پولیس اور انتظامیہ نے جے یو آئی کی شمالی سندھ میں قیادت سے ملاقاتیں بھی کی ۔ جس کے لیے انہوں نے کہا کہ “فحاشی اور عریانی کا مارچ “ہے کیونکہ اسکا نعرہ “میرا جسم مری مرضی ہے” لیکن ان گناہگار عورتوں نے (اس میں کوئی شک نہیں کہ سکھر پولیس اور انتظامیہ نے امن امان برقرار رکھنے میں آزادی مارچ والی خواتین سے تعاون کیا تھا)۔ لیکن “ عورت آزادی مارچ” میں سکھر جیسے شہر میں ہزاروں عورتوں کی شرکت سے عورت آزادی مارچ نکالا جس سے یو آئی کو اپنے سیاسی گڑھ پر بڑا خطرہ محسوس ہوا ۔

یہی وہ نقطہ تھا جہاں سے یہ مولانا حضرات ان گناہگار عورتوں کے پیچھے پڑ گئے۔ حالانکہ گھوٹکی کے مندر میں تو ساتھ کھڑے تھے۔ ان گناہگار عورتوں میں عرفانہ ملاح اور امر سندھو آئین میں میں اٹھارویں ترمیم کے ابتدائی مسودوں کی تیاری والے اجلاسوں میں بھی شریک تھیں۔ خانہ بدوش رائٹرز کیفے کا سب سے سگنیچر ایونٹ ایاز میلہ ہے جو شاہ لطیف کے بعد سب سے بڑے سندھی شاعر شیخ ایاز کو خراج کے لیے سات روز تک منایا جاتا ہے جہاں ملک بھر سے ادیب شاعر و فنکار شرکت کرتے ہیں۔

سندھی بلوچی پنجابی، اردو کے دانشور شاعر و ادیب۔ ملک کے اصلی تے وڈے چودھریوں نے پہلے تو کئی دن ایاز میلے کے متعلق بھی بڑی ڈی بریفنگ جاری رکھی۔ پھر عورت آزادی مارچ پر بھی کہ اس میں بھارتی کشمیر میں عورتوں کے ساتھ مظالم کو کیوں اجاگر نہیں کرتے۔ سندھ کے تعلیمی اداروں کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں کیمپس میں حافظ سعید وعظ کرنے آتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب کچھ روشن خیال فیکلٹی اور طلبہ نے ایک سیمینار میں ملالہ یوسف زئی کو ویب کاسٹ کے ذریعے بات چیت کو دعوت دی تھی تو انٹیلی جنس بیورو کے اہلکاروں نے آکر اس پروگرام کے منتظمین سے پوچھ گچھ کی تھی۔

لیکن خانہ بدوش کیفے کی ان گناہگار عورتوں کا معاملہ مختلف تھا۔ اصلی تے وڈے چودھری اس تاک میں کب کے تھے کہ خانہ بدوش کی بینظیر کو ان سب کو کسی نہ کسی طرح زیر کیا جائے۔ انہیں کئی بار وارننگ دی گئی۔ دھمکیاں بھی دی گئیں کہ عرفانہ کی لاش بھی تم لوگ نہیں پہچان سکو گے۔ تو ایسے میں پروفیسر ساجد سومرو ایک تاریک موڑ ثابت ہوا۔

جب اس نے اور ایک اور سندھی شاعر لیکن پی پی پی حکمرانوں کے پیارے احمد سولنگی جو سندھی ادبی سنگت کا سیکرٹری جنرل بھی ہے کے درمیان گالی گلوچ کا تبادلہ ہوا اور پھر پروفیسر ساجد سومرو کو توہین مذہب کے الزام میں خیرپور میرس پولیس نے غلط طور گرفتار کیا۔ کئی لوگوں کا خیال تھا کہ پروفیسر ساجد سومرو کو احمد سولنگی نے ہی اپنے اثر و رسوخ پر گرفتار کروایا ہے۔ کیونکہ کہ پروفیسر ساجد سومرو شاہ لطیف یونیورسٹی کا پروفیسر تھا۔ عرفانہ فقط سندھ یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسیشن کی صدر ہے بلکہ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کی اساتذہ کی یونین کی بھی عہدیدار ہیں۔ تو ساجد سومرو کی گرفتاری کیخلاف اس نے سوشل میڈیا پر کمنٹ کیا کہ پروفیسر ساجد سومرو کی گرفتاری قابل مذمت ہے اور جس کالے قوانین کے تحت اس کی گرفتاری کی گئی ہیں انکو منسوخ کیا جانا چاہیے۔

بس یہ لفظ .کالا” کیا کہنا تھا کہ ہر طرف سے ملعونہ ۔ مارو پکڑو، گرفتار کرو جے یو آئی ایف سندھ کے راشد محمود سومرو کی رہنمائی میں مہم شروع کئی گئی۔ ایک سو سے زیادہ اس طرح کی وڈیوز یو ٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا ذرائع پر عرفانہ کی تصاویر کی ساتھ اپ لوڈ کی گئی ہیں اور ہزاروں صفحات فیس بک پر انتہا پسند گروپوں اور افراد کی طرف سے اپ لوڈ کیے گئے ہیں۔گھوٹکی ضلع میں بھرچونڈی جو ہندو بچیوں کے تبدیلی مذہب کا گڑھ ہے وہاں کے مریدین کے ایک گروپ نے اسکو قتل کرنے کو روانہ ہونے کا اعلان بھی کیا۔ سارے سندھ میں خاص طور سندھی علاقوں میں “عرفانہ گستاخ کی سزا سر تن سے جدا” کے بینر یہاں تک کے اسکے کے گھر کے سامنے بھی ٹانگے گئے۔

سندھ میں پیپلزپارٹی زرداری کی حکومت ہے۔ وہ عرفانہ کیخلاف اس خطرناک ترین مہم، اور قتل کی دھمکیوں اور انتہا پسندوں کو اشتعال دلانے کیخلاف کوئی قدم اٹھانے میں مکمل ناکام گئی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے جب یہ انتہاپسند یو ٹیوب پر کہہ رہے ہیں “ہے کوئی ممتاز قادری جو جو اس عورت کو دوسرا سلمان تاثیر بنائے ؟”۔

حکومت کیا ،باقی سول سوسائٹی، قوم پرست جو سندھ کو صوفی ازم اور سیکولر ازم کا گہوارہ کہتے ہیں خاموش ہیں۔ خوف زدہ ہیں۔ خود سنسری کا شکار ہیں۔ “عرفانہ نے یہ لکھا کیوں”۔ بہت سے خوش ہیں۔ اس لیے کہ وہ انتہائی پڑھی لکھی خاتون ہے، سندھی ہے، ممی ڈیڈی کلاس کی نہیں۔  خانہ بدوش رائٹرز خواتین خانہ بدوش روح رکھتی ہیں۔ ڈرایئنگ روم انقلابی نہیں۔ عاصمہ جھانگیر کی پہلی برسی پر اپنی تقریر کی وجہ سے زیر عتاب آنے والی عرفانہ، عاصمہ جہانگیر نہیں۔ وہ تو  بھورو بھیل کی قبر اور اسکی ماں کو گلے لگانے والی مخلوق ہے۔

عرفانہ کی جگہ پر یہ ممی ڈیڈی ہوتے “تو پھر نانک یوسف”ہٹی چب بار از چپ بازار کا بیوپار چپ” سندھ انگریزوں کی آمد سے قبل والے تالپوروں کے تاریک دور کا نقشہ پیش کر رہا ہے جب کسی ہندو کے لفظ “رسو” (رسی) ادا کرنے پر اسے کہا جاتا کہ تونے لفظ “رسول” کہا ہے اب تجھ پر لازم  ہے کہ تو مسلمان ہو جا۔ عرفانہ کیساتھ بھی یہی ہوا لفظ “کالا” اسکے منہ سے نکلنا ہی تھا وہ” گستاخ” ہوگئی اور واجب سزا” ٹھہری۔ عرفانہ یا اس کے ساتھیوں کو کسی بھی طرح زیر کرنے کی کوششیں طویل عرصے سے جاری رہی ہیں۔ بس کہ زبان گیلی چھڑی ہے۔ ادھر پھسلتی کہ ادھر ملا گردی کے پٹے کھل گئے۔

یہ کوئی پہلی بار نہیں کہ عرفانہ اور اسکی ساتھی امر سندھو اور دیگرسمیت کوئی پہلی بار ایسی مسلسل مہم اور سازشوں کی شکار ہو رہی رہی ہیں ۔ اس سے قبل انکی ایک ساتھی کو سندھی ادبی بورڈ میں کتابت کی غلطی کی آڑ میں توہین رسالت کا الزام لگایا گیا جس کی انکوائری اسوقت کے وزیر اعلی ارباب رحیم کی ممبر انسپیکشن ٹیم اور وزیر تعلیم حمیدہ کھوڑو(اس اسکالر خون کو بھی کیا کیا نہ کہا گیا۔ کبھی اسے جاگیرداروں کی ایجنٹ تو کبھی فوج کی ایجنٹ تو کبھی سی آئی اے کی ایجنٹ کہا گیا۔ سندھی مرد کا مسئلہ پڑھی لکھی اور با اختیار عورت ہے چاہے کسی بھی کلاس کی ہو) نے کی تھی اور الزامات لغو ثابت ہوئے۔ 

 کئی بار عرفانہ پر اسکی “ساڑھی سمیت اس پر تیزاب” پھینکنے کی دھمکیاں سوشل میڈیا پر دی گئیں تو کبھی اس کے کیمپس میں رینجرز کے اہلکار کو اجرک پہنانے پر سندھ کی غدار کہا گیا۔ اس سے بھی قبل ایک سندھی قوم پرست شاعر سرکش سندھی نے انکی ایک ساتھی شاعرہ پر الزام لگایا کہ اسکے تعلقات ایک ہندو سے ہیں اور کتاب لکھ کر امر سندھو، عرفانہ اور ا ن کے ساتھیوں کیخلاف ملاؤں اور عام لوگوں کو اشتعال دلایا کہ ہندو کے ساتھ مسلمان عورت کے تعلقات اور انکی حمایت دونوں خلاف اسلام ہے اور یہ واجب قتل ہیں۔

اتفاق ہے کہ اس شاعر کی اپنی بیٹی اور دبنگ قوم پرست خاتون بھی جو اپنے مرد پارٹی ساتھیوں کی میتیں اٹھاتی ہیں اور جنازوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہیں بھی کچھ عرصہ قبل توہین مذہب کے فتووں تلے آئی تھی کہ اس نے اپنے ایک پارٹی ساتھی کا نکاح شاہ لطیف کے شعروں سے پڑھایا تھا۔

شاہ لطیف جس نے کہا تھا کہ لوگو جنہیں تم شعر سمجھتے ہو وہ آیتیں ہیں۔ لیکن بقول میرے شاعر امداد حسینی “شاہ لطیف ، اچھا ہوا کہ دور آسمانوں پر کہیں جا کر بیٹھ گیا ۔ اگر نیچے آیا بھی تو کافر کہلائے گا”۔

3 Comments