پروفیسر عرفانہ ملاح : ہم شرمندہ ہیں

پروفیسر عرفانہ ملاح کا مولویوں کے ایک گروہ کے بلاسفیمی ہتھیار سے بچنے کے لیے دوسرے گروہ کے مولویوں سے مدد لینا اور اُن کے حضور اپنے عقیدے کی صفائی دینا اس کلیشے کی دھجیاں اڑا گیا ہے کہ سندھ کی دھرتی پر ملائیت کے خلاف مضبوط محاذ موجود ہے۔یہ ویڈیو پاکستان کا اصل چہرہ دکھاتی ہے جس نے کئی لوگوں کو اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔

محترمہ عرفانہ ملاح ایک متحرک شخصیت ہیں۔ وہ عورتوں کے حقوق کی تحریک اور سندھ یونیورسٹی کے اساتذہ کی تحریک کی صف اوّل کی رہنما ہیں۔ کسی کو اندازہ ہے وہ یہ وڈیو ریکارڈ کرنے سے پہلے کس کرب سے گذری ہونگی؟ وہ اس وڈیو کو ریکارڈ کرنے سے پہلے کتنا روئی ہونگی؟ ان کو اس وڈیو ریکارڈ کرنے کیلئے کیسے مجبور کیا گیا ہوگا؟ ان پر کتنا ذہنی اور اعصابی دباؤ ہوگا؟

ایک نڈر ترقی پسند، روشن خیال بائیں بازو کی سندھی استاد رہنماء کو ملاؤں کے من گھڑت فتوؤں اور توھین کے جعلی الزامات کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں شکستہ لہجے اور کپکپاتی و روہانسی آواز میں ملاؤں کے لکھے بیان صفائی کو ملائیت کے دربار میں پڑھنا پڑا، ریکارڈ کرانا پڑا اور پھر اُسے جنونی ملاؤں کے ہاتھوں فاتحانہ انداز میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے دیکھنا پڑا۔

ڈاکٹر عرفانہ ملاح کو سُنی علماء و مشائخ کے پاس جاکر اپنے ایمان کی گواہی اس لیے دینا پڑی کہ جمعیت علمائے اسلام سندھ کے صدر مولوی راشد دیوبندی نے ڈاکٹر عرفانہ ملاح پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگایا اور اُن پر اس الزام کے تحت حیدرآباد تھانے میں ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی اور اس کی خاطر دیوبندی مدارس کی چھاتہ تنظیم وفاق المدارس اور دیوبندی عالمی ختم نبوت انٹرنیشنل، کالعدم دیوبندی تکفیری تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان/اہلسنت والجماعت کا دباؤ ڈلوانے کی کوشش کی۔

ڈاکٹر عرفانہ ملاح اور اُن کے ساتھیوں اور ہمدردوں نے شاید محسوس کرلیا تھا کہ اگر انہوں نے صرف ترقی پسند پلیٹ فارم پر اکتفا کیا تو شاید عرفانہ پر توہین رسالت کی ایف آئی آر بھی کَٹ جائے اور وہ اس الزام میں گرفتار ہوجائیں جبکہ اس الزام میں گرفتار ہونے کا مطلب جیل کی کال کوٹھڑی ہے ۔ اس صورت حال میں بچنے کے لیے مولوی راشد سومرو دیوبندی کی اشتعال انگیز اور خطرناک مہم کا توڑ کرنے کے لیے سابق ایم این اے مولانا ابوالخیر زبیر قادری رضوی سُنی بریلوی عالم سے رجوع کیا گیا جن کے ساتھ سُنی بریلوی مدارس کی چھاتہ تنظیم تنظیمات المدارس حیدر آباد کے ناظم بھی شریک ہوئے اور ڈاکٹر عرفانہ ملاح توھین رسالت کے جھوٹے الزام سے بچ پائیں۔

سب سے تکلیف دہ امر یہ ہے کہ یہ سب اُس صوبے میں ہوا جہاں پر پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور جہاں پر سندھ اسمبلی میں سردار علی شاہ سمیت قریب قریب بیس سے زیادہ ایسے اراکین ہیں جو خود کو ترقی پسندی کی علامت بتلاتے نہیں تھکتے۔ پی پی پی بطور جماعت سندھ میں بروقت عرفانہ ملاح کے خلاف بلاسفیمی کے نام پر راشد سومرو اور اُس کی جماعت کی بلیک میلنگ کو روکنے کے لیے کوئی اقدام اٹھانے میں ناکام رہی۔

سندھ حکومت جس سے عرفانہ ملاح نے تحفظ مانگا تھا، تحفظ نہ دے سکی۔ سندھ کی قوم پرست سیاسی جماعتیں، سندھی ترقی پسند بائیں بازو کے حلقے اور سندھ بھر کے ترقی پسند صحافی، ادیب، دانشور، کراچی کے بڑے بڑے ترقی پسند نام یہ سب کے سب ڈاکٹر عرفانہ ملاح کے گرد ایک محاذ کھڑا کرنے میں ناکام ہوگئے۔ سندھ لیکچرر ایسوسی ایشن سمیت سندھ بھر کی اساتذہ تنظیموں کی طرف سے عرفانہ ملاح کا دفاع نہ کیا جاسکا لاہور، اسلام آباد، یورپ اور امریکہ میں تشریف فرما لبرل اشراف بین الاقوامی برادری کو سینسٹائز نہ کرسکے۔ ویمن ایکشن فورم کی شاخیں سوائے پریس ریلیز جاری کرنے کے اور کچھ نہ کرپائیں۔

ڈاکٹر عرفانہ ملاح کے اقبالی بیان پر ڈاکٹر صاحبہ کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہتا، میں خود کو اور پاکستان کی سول سوسائیٹی بشمول وکلا، خواتین کی انجمنوں اور اساتذہ کی مراعات کی بھیک مانگتی تنظیموں کو ٹھہراتا ہوں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بات بے بات پر سو موٹو لینے والی عدلیہ کو بھی ٹھہراتا ہوں۔ آج علم، دانش، اور سماجی سائنس سب مولویوں کے سامنے ہار گئے ہیں ہم نے کم علمی، جہالت، اور دھونس دھآندلی کے آگے ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ ہم نئی نسل کو کیا دینے جارہے ہیں؟

میں بایاں بازو کے ترقی پسند اور لبرل کیمپ کو الزام تراشی کی زد میں نہیں لارہا بلکہ صرف یہ توجہ دلانے کی کوشش کررہا ہوں کہ نوبت بہ ایں جا رسید کہ دایاں بازو کا ملائیت ونگ اب اسقدر طاقتور ہے کہ وہ ہر مزاحتمی آواز کے خلاف بلاسفیمی کارڈ آسانی سے کھیل لیتا ہے اور مولویوں کا گروہ یہ کارڈ کھیلتا ہے تو دوسرا اس کے مقابلے میں جان بچانے کی شرط یہ رکھتا ہے کہ آئندہ کسی مذ ہبی جبر کا شکار گروہ یا فرد کے لیے آواز نہیں اٹھانی۔

ہم سب ڈاکٹر عرفانہ ملاح سے سخت شرمندہ ہیں، ہم بحیثیت معاشرہ ہی ناکام ہوگئے ہیں۔ سندھ رجعت پسندوں اور مذھبی ٹھیکے داروں کے آگے ڈھیر ہوگیا ہے۔ یہ آئیڈیل صورت حال ہرگز نہیں ہے اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ترقی پسند فکر کس قدر کمزور ہوگئی ہے کہ وہ اپنے ہر اول دستے کا بھی دفاع کرنے میں ناکام ہورہی ہے۔ اس سے پہلے سیدہ شہلا رضا کو بھی توہین کے الزام میں اعلانیہ اپنی صفائی دینا اور معافی مانگنا پڑی تھی ۔ اور شیعہ علماء کا سہارا لینا پڑا تھا۔ پی پی پی کے سابقہ دور میں یہ الزام مرحومہ فوزیہ وہاب پر لگا تھا۔ اُن کو اپنے دادا کے مدرسے جامعہ اسلامیہ عربیہ بنوری ٹاؤن کے مرحوم مفتی نعیم کا سہارا لینا پڑا تھا۔

یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔ ڈاکٹر عرفانہ ملاح کے وضاحتی بیان نے پروفیسر ساجد سومرو کے حوالے سے عوامی دباؤ کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ اس بیان کے سامنے آنے کے بعد یہ تاثر بھی بن گیا ہے کہ اگر آپ نے اپنے پر توھین کے الزام سے بچنا ہے تو اپنے آپ کو کسی نا کسی گروہ مولویوں کی پناہ میں دینا پڑے گا۔

Web Desk

2 Comments