آہ طارق عزیز بھی چل بسے

لیاقت علی

معروف ٹی وی میزبان طارق عزیز 84 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ ہمارے ہاں عمومی طورپر یہ روایت دوہرائی جاتی ہے کہ جو مرگیا اس کی اچھی باتوں کا ذکر کیا جائے اور اس کے ظلم وزیادتی، موقع پرستی، چالبازی اور دھوکے بازی کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ عام آدمی کی حد تک تو اس روایت پر عمل کرنا درست ہوسکتا ہے لیکن کسی پبلک فگر کے لئے یہ روایت نبھانا درست نہیں ہے کیونکہ ایسا کرتے ہوئے ہم تاریخ سے دھوکہ دہی کرنےکے مرتکب ہوتے ہیں۔

طارق عزیز نے اپنے فنی سفر کا آغاز شباب کیرانوی کی فلم انسانیت سے کیا تھا۔اس فلم میں ان کے کردار کو بہت سراہا گیا تھا۔اس کے بعد انھوں نے کچھ اور فلموں میں بھی مختلف نوعیت کے رول ادا کئے تھے لیکن انھیں اصل شہرت اس وقت ملی جب انھوں نے 1974 میں پی ٹی وی سے نیلام گھر کے نام سے پروگرام شروع کیا تھا۔

طارق عزیز اپنے زمانہ طالب علمی میں ترقی پسند طلبا تنظیموں میں شامل رہے تھے۔ مارچ 1970 میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقد ہونے والی کسان کانفرنس میں بھی شامل تھے۔ انہی دنوں وہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے تھے۔ جب نیپ اور جے یو آئی کی مخلوط حکومت صوبہ سرحد( کے پی کے) میں قائم ہوئی تو بھٹو کے ایما پر وہ پیپلزپارٹی کے چند انقلابیوں کی ہمراہی میں اس حکومت کے خلاف میدان میں نکلے تھے اور صوبہ سرحد کے مختلف شہروں میں صوبائی حکومت کے خلاف جلسے جلوس کیا کرتے تھے۔

پیپلزپارٹی کی بدولت ہی انھیں پی ٹی وی پر انٹری ملی اورانھوں نے اپنا پروگرام نیلام گھر شروع کیا تھا۔ یہ ابتدائی طورپر جنرل نالج کا پروگرام تھا جسے طارق عزیز حکمرانوں کی خوشنودی کے لئے اسلامی معلومات کا پروگرام بنادیا تھا۔ یہ اور اس جیسے ہی پروگرام تھے جنھوں نے ہمارے نوجوانوں میں علم کی بجائے معلومات کو پرموٹ کرنے میں اہم رول اداکیا تھا۔

سنہ1977 میں جب بھٹو کی حکومت کو ختم کرکے مارشل لگایا گیا توطارق عزیز نےایک سو اسی ڈگری کی قلابازی لے کر جنرل ضیا کے مارشل لا کی حمایت کا اعلان کردیا۔ ان کی حمایت کا مقصد ایک ہی تھا کہ پی ٹی وی پر ان کا پروگرام بغیر کسی رکاوٹ کے چلتا رہے۔ انھوں نے جنرل ضیا کی منشا کے مطابق اپنے پروگرام کو بہت زیادہ اسلامائز کیا تھا۔ وہ مارشل لا مخالف سیاسی کارکنوں کی قید وبند اور کوڑوں مارنے کی تائید وحمایت کرتے تھے۔ اپنے پروگرام میں جنرل ضیا اور اس کی اسلام وطن دوستی کے قصیدے پڑھتے تھے۔

کہتے ہیں کہ ایک دفعہ جنرل ضیا نے انھیں کہا تھا کہ میری ذہنی طور پر معذور بیٹی آپ کے پروگرام کی بہت بڑی فین ہے اور اگر آپ خود کو تبلیغ اسلام کے وقف کردیں ہزاروں لاکھوں غیر مسلم آپ کے ہاتھ پراسلام قبول کرسکتے ہیں۔

جنرل ضیا کے بعد طارق عزیز نے ان کی تیارکردہ مسلم لیگ اوراسلامی جمہوری اتحاد میں شامل ہوگئے اور 1996 میں ن لیگ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن سلیکٹ ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی اہلیہ کو بھی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب کرایا تھا۔ جنرل پرویز مشرف برسر اقتدار آئے تو یہ ن لیگ کو چھوڑ کر ق لیگ میں شامل ہوگئے تھے۔سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والوں میں طارق عزیز شامل تھے اور ان پر فرد جرم بھی عائد ہوئی تھی اور سیاسی عمل کے لیے نااہل قرار پائے تھے۔پھر ق لیگ میں سیاسی پناہ ڈھونڈی۔

پرلے درجے کے موقع پرست،شوباز اورنمائش پسند شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی وفات ان کے اہل خانہ کے لئے تو یقینا نقصان کا باعث ہے لیکں پاکستان کے عوام کے لئے انھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا جس پر ان کی کمی محسوس ہونے کا روایتی فقرہ بھی دہرایاجاسکے۔

Comments are closed.