اٹھارویں ترمیم سے خوفزدہ کون ہے ؟

قربان بلوچ 

آج سے دس برس پہلے، جب پیپلزپارٹی کی حکومت اپنے اتحادیوں اور حزب مخالف جماعتوں کے ساتھ مل کر آئین میں اٹھارویں ترمیم منظور کروا چکی تو اس کی حیرانگی دیدنی تھی۔ اسے اور اتحادیوں کو اعتبار ہی نہیں ہورہا تھا کہ وہ ایک ایسا معرکہ سر کرچکے ہیں  جس کا اس ملک میں تصور ہی ممکن نہ تھا۔

ترمیم کے بعد شہر اقتدار میں پچھلے دس  برسوں کے دوراں یہ بات ضرور مشاہدے میں آئی ہے کہ  ہر ایک دو سال بعد اٹھارویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی خواہش جاگ اٹھتی ہے، خبریں لیک کی جاتی ہیں،رد عمل میں شور مچ جاتا ہے، جس عمل سے عوامی ایشوز اس دانستہ اٹھائی گئی گرد میں گم ہوجاتے ہیں،شاید مقتدر قوتوں کی خواہش بھی یہی  ہے۔ 

 جب ملک میں کورونا کا زور بڑھ رہا تھا اس دوراں ایک‘‘ فرشتےرپورٹرز’’ نے  خبر بریک کردی کہ وفاقی حکومت نے اٹھارویں آئینی ترمیم اور ساتویں این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے،میرے خیال میں اس سوچ کی بنیادی وجہ کچھ شرائط ہیں جس میں ایک اہم نقطہ قابل تقسیم محاصل میں صوبوں کا حصہ بڑھ تو سکتا ہے لیکن کم نہیں ہوسکتا والاہے،دوسرا ایوان صدر طاقت اور سازش کا منبہ نہیں رہا، تیسرا اسٹیبلشمنٹ کو حکومتیں ختم کرنے یا ناپسندیدہ لوگوں کو ہٹانے کیلئے اب دوسرے طریقے اختیار کرنا پڑ رہے ہیں۔ وفاقی پارلیمانی نظام میں بڑے فیصلے کرنے کیلئے تمام فریقین کو ساتھ لیکر چلنا پڑتا ہے، خبریں لیک کرواکر آئین میں ترمیم ممکن نہیں۔  جبکہ اٹھارویں آئینی ترمیم تو ویسے بھی ایک ایسا بڑا معرکہ تھا جسے پار کرنے کے باوجود اس وقت کی سیاسی جماعتوں کو وہ سب کچھ خواب ہی لگ رہا تھا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب آٹھ اپریل2010 کو قومی اسمبلی نے جب اٹھارویں آئینی ترمیم کا بل پاس کیا تھا تو وہاں موجود چھوٹے صوبوں سے وابستہ  ہم جیسے لوگوں کو ایسا لگا کہ ایک طویل محتاجی کا دور ختم ہوا۔ میں بھی دوسرے چھوٹے صوبوں کے عوام کے طرح ہی  خوش ہوا تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا  تھا کہ ملک کو بنانے والی قوموں نے  اپنے تاریخی حقوق وفاق سے واپس لے لیے ہیں۔لیکن کچھ اشرافیہ کی باڈی لینگویج سے لگ رہا تھا کہ وفاق کے ساتھ بہت طاقتیں بہت کچھ ہار گئے ہیں۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان میں 73کے آئین کو دو آمروں نے مسخ کیا۔ یہ سیاسی جماعتوں کا کمال تھا کہ اجتماعی سیاسی فہم کا مظاہرہ کرکے انہوں نے آئین میں سے آمروں کی غلاظتیں صاف کیں۔ اس ترمیم نے سر پر منڈلاتے کالے بادلوں کو تباہ کن طوفان کے بجائے بارش جیسی رحمت میں تبدیل کردیا۔

یہ الگ بحث ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم سے چھوٹے صوبوں کی عوام کو کیا ملا ؟ ساتوین این ایف سی ایوراڈ اور اٹھارویں آئینی ترمیم سے عام آدمی کو بہت کچھ  ملنا چاہیئے تھا لیکن بدقسمتی سے اسے نہ مل سکا۔

عوام کے نصیب میں  آج بھی ابلتے گٹر،اساتذہ سے محروم تباہ حال اسکول ،ادویات  اور ڈاکٹروں سے خالی ہسپتال ہیں کیونکہ اٹھارویں ترمیم کے نام پر لیے گئے اختیارات ایک مرتبہ پھر سیاسی اشرافیہ لے اڑی ہے،جس نے طبقاتی خلیج کو مزید گہرا  کردیا ہے۔ حالانکہ بہت سارے ساکون سے سندھ میں سیاسی نظریات کا روحانیت سے الحاق کرادیا گیا ہے ،لیکن  اس کے باوجود آئینی ترمیم کو صوبائی حکومتوں کی ناکامی سے جوڑا نہیں جا سکتا،یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ صوبے اٹھارویں آئینی ترمیم اور ساتویں این ایف سی ایوارڈ کا ثمر عام لوگوں تک پہچانے میں ناکام  رہے ،لیکن اس ترمیم سے وفاق مضبوط ہوا۔اس وقت میرے ذہں میں جو سوال ہے وہ یہ ہے کہ

 حکمران جماعت کو اس وقت اٹھارویں آئینی ترمیم اور ساتویں این ایف سے ایوراڈ کو چھیڑ کر گرنے کیلئے  دھکا کون دے رِہا ہے؟ حالانکہ ملک کی سیاسی جماعتوں میں ویسے بھی نیم حکیموں کی کمی نہیں، اور ان کے ہوتے ان جماعتوں کو دشمن کی بھی ضرورت نہیں۔

قربان بلوچ اسلام آباد کے سنیئر صحافی ہیں، واٹر ایشوز،  صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم  اور سیاسی معاملات پر لکھتے ہیں

Comments are closed.