اسلام کی روح اور اسلام آباد کا مندر

شیراز راج

جس طرح عقیدہ اور عبادت لازم و ملزوم نہیں، اسی طرح عبادت اور عبادت گاہ بھی لازم و ملزوم نہیں۔ اکثریتی آبادی کی کم ظرفی ہو، ظالم حکمرانوں کا جبر ہو، دہشتیوں اور تکفیریوں کا خوف ہو، مارشل لاؤں کا سناٹا ہو، کسی مقامی یا عالمی وبا کے حفاظتی ضابطے ہوں، یا کسی بیماری یا ضعف کی لاچاری،۔۔۔۔عبادت گاہ تک رسائی نہ ہونے سے رب تک رسائی کے راستے مسدود نہیں ہوتے،۔۔۔عقیدہ کمزور نہیں ہوتا، بلکہ بیشتر صورتوں میں مضبوط ہوتا ہے۔

عبادت ایک فرد کا اپنے رب سے براہ راست رابطہ ہے،۔۔۔اپنی اعلی ترین کیفیت میں، یہ الوہی انجذاب سے پھوٹتی سرمستی ہے جس میں کسی تیسرے، اور بالاخر کسی دوسرے، کی گنجائش نہیں رہتی۔ عبادت گاہ ایک مقام ہے جو فرد کو اجتماعی شناخت اور گہری احساس وابستگی دیتا ہے، جزو کو کل کا اعتبار دیتا ہے۔۔۔۔۔عبادت گاہ کا احاطہ، اسکے مینار، علامتیں، استعارے،تزئین و ارائش، اسکا شکوہ اور اس سے جڑی روحانی بالیدگی کی کیفیت اپنے اصل میں احساس تحفظ ہوتا ہے،۔۔۔۔اور احساس تفاخر،۔۔۔۔۔اور احساس تسلسل،۔۔۔۔۔۔نسل در نسل،۔۔۔۔

میں نے جب سے عملی زندگی میں قدم رکھا ہے، میں ‘اسلام کی حقیقی روح‘ کی ڈھال اٹھائے ہوئے ہوں۔ مجھ جیسے، ’مسلمانوں کے معذرت خواہ‘ کو کہیں اور عافیت مل بھی نہیں سکتی۔ جو اتنی محبتیں ہنڈائی ہیں، جو اتنی نیک، پارسا، نرم خو، پیار کرنے والی، درد دل رکھنے والی روشن روحیں دیکھی ہیں، انہیں کہاں، کس خانے میں رکھوں؟

دوسری طرف خود راستی کے نشے میں چور، نخوت زدوں کا دفاع کیسے کروں؟ نفرت، منافرت، دھونس، دھاندلی، تذلیل، تشدد، ناانصافی، منافقت،۔۔۔۔امتیازی قوانین اور قانونی امتیاز،۔۔۔۔۔زنابالجبر، استحصال، اغوا، تشدد، لوٹ کھسوٹ،۔۔۔۔عبادت گاہوں کا انہدام، الہامی کتب کی تحقیر،۔۔۔۔قبروں کی تذلیل، کمسن بچیوں کا اغوا، جبری تبدیلی مذہب، نہتوں کا بے سبب قتل، جھوٹے الزامات پر برس ہا برس قید،۔۔۔۔ پاکستان کو اقلیتوں کا جہنم کہنے والوں کو جھٹلانا آسان تو نہیں۔ ظلم کے درجے نہیں ہوتے،۔۔۔۔یہ کم زیادہ، اچھا برا، جائز ناجائز، اپنا پرایا نہیں ہوتا،۔۔۔۔یہ ہر جگہ ایک سا ہوتا ہے۔

مذہبی شناخت جب احساس گناہ، احساس کمتری اور احساس شکست کا پردہ بن جاتی ہے تو نمائشی پارسائی اور کھوکھلا تکبر جنم لیتا ہے۔ محبت، عجز، نفاست، رواداری، بردباری، حلیمی، نجابت، اعلی ظرفی، اور احترام آدمیت کی جگہ انفرادی و اجتماعی فسطائیت کا چلن رواج پکڑتا ہے۔ دوسرے کی آنکھ کا تنکہ دکھائی دیتا ہے، اپنی آنکھ کا شہتیر نہیں۔ یہی کہانی ہے دوست،۔۔۔ہماری بھی اور ہمارے دشمنوں کی بھی،۔۔۔۔ہم سب ایک دوسرے کا آئینہ ہیں اور ہم سب اندھے ہیں۔

یہاں پردیس میں، میرے پاس ایک کتاب ہے، ’پاکستان کے گرجا گھر‘،۔۔۔یہ ایک بڑے حجم کی انگریزی کتاب ہے جس میں پاکستان کے پرشکوہ، بلندوبالا میناروں والے گرجا گھروں کی خوبصورت تصویریں اور انکی مختصر تاریخ دی گئی ہے۔ گزشتہ دنوں میں نے یہ کتاب ایک سکہ بند مسیحی انتہا پسند کے ڈرائنگ روم میں دیکھی۔ یہ کتاب احساس تفاخر پیدا کرتی ہے،۔۔۔اسے دیکھ کر ایک لمحے کے لیے سارے شانتی نگر، گوجرہ، جوزف کالونی اور یوحنا آباد بھول جاتے ہیں،۔۔۔یہ پاکستان سے محبت اور وابستگی کو اجاگر کرتی ہے۔ عبادت کا حق، عبادت گاہ کا حق محض دستوری سہولتیں نہیں،۔۔۔یہ قوم سازی کے اساسی تصورات کا اساسی جزو ہے۔

اسلام آباد میں مندر بننے دو۔ اس میں ہندووں کا فائدہ کم ہے اور پاکستان کا فائدہ زیادہ ہے۔ یہ آپ کے اور پاکستان کے، ’معذرت خواہوں‘ کو تقویت پہنچائے گا،۔۔۔زخموں پر پھاہا رکھے گا۔ ورنہ ہندو جن بتوں کو پوجتے ہیں، وہ مٹی پتھر کے نہیں اعتقاد کے بنے ہیں اور مندروں میں نہیں، دلوں میں بستے ہیں۔ دلوں کے بت ٹوٹتے نہیں، پگھلتے ہیں،۔۔۔۔محبت کی حرارت سے۔

کمزوروں کی دادرسی کرو، انہیں احساس تحفظ دو۔ انہیں وہ حقوق دو جو بطور اقلیت آپ دنیا سے مانگتے ہو۔

One Comment