کیاانصاف میں تاخیرناانصافی ہے؟

بیرسٹرحمید باشانی

انصاف میں تاخیرانصاف سےانکارہے۔یہ قول آج کل کئی بڑے دانشوروں اورمفکروں سےمنسوب کیاجاتا ہے، لیکن ڈکشنری آف کوٹیشن کےمطابق اس کا اصل خالق سابق برطانوی وزیراعظم ولیم گلیڈ سٹون ہے۔یہ مقولہ ولیم گلیڈ سٹون کےنام اس وقت منسوب کیا گیا تھا،  جب وہ اپنی مقبولیت کےعروج پرتھا، اوربارباربرطانیہ کاوزیراعظم منتخب ہوتا تھا۔

 عروج کے زمانےمیں اس کے گاوں سمیت کئی جگہوں پراس کے مجسمے نصب کیے گئے تھے۔ کئی سوسال بعد گلیڈ سٹون آج کل ایک بارپھرموضوع بحث ہے، اورعوامی غم وغصے کا شکار ہے۔  سٹون کے پتلے ہٹانےکا مطالبہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ گلیڈسٹون ایک نسل پرست آدمی تھا۔وہ غلامی کے نظام اورغلاموں کی تجارت کا حامی تھا، لہذا وہ اس عزت کا حق دار نہیں تھا جو اسے بخشی گئی۔اسی تناظر میں کچھ لوگوں نےڈکشنری آف کوٹیشن کے مدیران سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ڈکشنری میں تصحیح کریں۔ان کا خیال ہے کہ اس مقولے کا اصل خالق ولیم پین ہے، جس نے کہا تھا انصاف میں تاخیرناانصافی ہے۔

 بہرحال یہ مقولہ کسی کا بھی ہوایک تلخ سچائی کا عکاس ہے۔یہ حقیقت ہےکہ انصاف کی فراہمی میں تاخیرایک بہت ہی پرانا مسئلہ ہے۔جب سے انسان نے باقاعدہ نظام انصاف ترتیب دیا،  تب سے یہ مسئلہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔  لیکن ابتدائی ادوارمیں کم انسانی آبادی، جرائم کی شرح میں کمی اورعدالتوں کے نسبتا سیدھے سادے نظام اورطریقہ کارکی وجہ سے اس مسئلے نےوہ شدت اختیارنہیں کی تھی، جوآج ہے۔جوں جوں انسانی سماج پیچیدہ ترہوتا گیا انصاف کے تقاضوں میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔  اس کے ساتھ ساتھ عدالتی طریقہ کار بھی طویل اورپیچیدہ ہوتا گیا۔

ایک وقت ایسا تھا کہ درختوں کے نیچےعدالت لگا کرقتل جیسے سنگین جرائم کا فیصلہ ایک آدھ گھنٹے میں کردیا جاتا تھا۔  یہ شاید فوری اورسستا انصاف تھا ۔ لیکن انصاف کے تقاضوں اورضروریات میں اضافے کی وجہ سے یہ عرصہ دنوں اورمہینوں سے بڑھتا ہوا کئی کئی سالوں تک پھیلتا چلا گیا۔دنیا جتنی جدید ہوتی گئی اورجدید ٹیکنالوجی متعارف ہونے سے اس مسئلے کی شدت میں کمی کی امید پیدا ہوئی تھی۔مگریہ امید بھی اس طرح برنہیں آئی۔ اس کےکچھ مثبت اثرات توضرورمرتب ہوئے، مگرصرف ان محدودے چند ترقی یافتہ امیر ممالک میں جنہوں نےاس سےفائدہ اٹھایا، اورٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے لیےجن وسائل کی ضرورت تھی وہ مہیا کیے۔اس باب میں کینیڈااورآسٹریلیاجیسےکچھ ممالک نےقابل ذکر پیش رفت کی، مگراس کا ہرگزمطلب نہیں ہےکہ ان ممالک نےانصاف کے حصول میں تاخیر کےمسئلے پرمکمل طورپرقابوپا لیا ہے۔

  ان ممالک نےاسی اورنوے کی دہائی میں اپنےاپنےنظام انصاف میں جدید ٹیکنالوجی کےاستعمال کا آغاز کر دیا تھا۔  نوے کی دہائی میں کینیڈا کےسپریم کورٹ نےاپنے ایک مشہورفیصلے میں تاخیر کے مسئلے کی سنگینی کا اظہار کیا تھا، اور اس کا حل تلاش کرنےپرزور دیا تھا۔  اس کے بعد اس میدان میں قابل ذکر کام ہواہے، مگر اب بھی کبھی نہ کبھی سراٹھاتا ہے، حالاں کہ اس ملک کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے، جس کا رونا تیسری دنیا کےبیشترممالک روتے رہتےہیں۔

تیسری دنیا کےپسماندہ اورغریب ممالک میں اس باب میں صورت حال بہت ہی نا گفتہ بہ ہے۔  بھارت میں ایک مضبوط نظام انصاف موجود ہے، مگریہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے مسئلے پرقابوپانےمیں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔  بھارت کےعدالتی نظام میں اس وقت کروڑوں مقدمات التوامیں پڑے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں یہ مسئلہ اپنی پوری سنگینیوں کےساتھ موجود ہے۔  اس سلسلے میں ہراس شخص کی زبان پرشکوہ ہے، جسےنظام انصاف سے واسطہ پڑتا ہے۔  بیس بیس سال تک عدالتوں کےچکرکاٹنے کے باوجودانصاف سےمحرومی توایک عام شکایت ہے، مگر ایسی کہانیوں کی بھی کمی نہیں، جن میں تیسری اورچوتھی نسل کے لوگ اپنے آباو اجداد کے شروع کیے ہوئے مقدمات لڑ رہے ہوتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں پاکستان کی اعلی عدلیہ نےاس پہلوپر کچھ توجہ دی ہے، جس سے بہتری کا آغازضرورہوا ہے، مگرابھی تک کسی قابل ذکرتبدیلی کے کوئی آثارنہیں ہیں۔

دوسری طرف صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر فوری انصاف کی فراہمی کا مطالبہ بڑھ رہا ہے۔گزشتہ کئی برسوں سےسیاست میں ایک مقبول نعرہ سستا اورفوری انصاف ہے۔  یہ نعرہ سب کا پسندیدہ ہے۔ سیاسی رہنماوں سے لیکرسول سوسائٹی تک افراداورگروہوں کی زبان پریہ نعرہ ہے۔  لیکن سستا اورفوری انصاف قدرتی انصاف کے سارے تقاضے پورے کیے بغیرممکن نہیں ہے۔  فوری انصاف کےساتھ درست انصاف ہونا اور فیصلوں کاغلطیوں سے پاک ہونا بھی ضروری ہے۔  بلکہ نظام انصاف کا مقصد ہی یہ ہونا چاہیےعدالتیں بروقت اورفوری کے ساتھ ساتھ درست فیصلے کریں۔

  انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی کچھ بنیادی شرائط ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عدالت کا ایک خاص پرسکوں ماحول اورڈیکورم ہو۔  ججوں، عدالتی عملے ، استغاثہ اورصفائی کے وکلا کو کام کرنے کےلیے مناسب ماحول اورموقع میسرہو۔  ملزم کواپنی صفائی کے لیے وہ سارے مواقع مہیا ہوں، حقوق حاصل ہوں جوآئینی اورقانونی طور پراسے حاصل ہیں، اورقدرتی انصاف کےتقاضے پورے کرنے کے لیےضروری ہیں۔ اگرایک ملزم اپنی صفائی کے لیے چالیس گواہ پیش کرنا چاہتا ہے۔ یا استغاثہ کےپاس ملزم کے خلاف چالیس گواہ ہیں توقدرتی انصاف کا تقاضہ یہ ہی کہ دونوں کواپنےاپنےگواہ پیش کرنے، ان کے بیانات لینے اوران پرجرح کاپوراپوراموقع دیا جائے۔

  کوئی مادی شہادت ہےتواس کی جانچ پرکھ کا پوراموقع اوروقت میسرہو ۔  کوئی سائنسی یا طبی معاملہ ہے تومتعلقہ شعبوں کےماہرین کوپیش ہوکراپنے بیانات قلمبند کرنےکا موقع دیا جائے۔  ظاہرہے یہ سارے کام ڈھنگ سے کرنے کے لیے وقت اورپیسہ چاہیے۔  یہ مشکل کام نہ سستےطریقے سےہوسکتا ہے، اورنہ ہی جلد بازی میں درست یا مناسب طریقے سےکیا جا سکتا ہے۔لہذااس باب میں معقولیت کی ضرورت ہے، تاکہ انصاف کے تقاضے بھی پورے ہوں، اورغیرضروری تاخیرسے بھی بچاجا سکے۔  اس سلسلے میں کینیڈااورآسٹریلیا جیسے ممالک کےتجربات سےاستفادہ کیا جا سکتا ہے۔

انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے مسئلے سے نبٹنے کے لیے جہاں تک معاشی وسائل کی بات ہےتونظام انصاف کوحکومت کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔  مگرخودنظام انصاف میں بہت ساری چیزوں میں موجودہ وسائل کےاندررہ کربھی بہت بڑی اورحیرت انگیزتبدیلی لائی جا سکتی ہے۔  اس کےلیےتبدیلی کی حقیقی خواہش اورمضبوط ارادوں وعزم کی ضرورت ہے۔  ہمارے عدالتی نظام میں جوافراتفری اوردھکم پیل کی کیفیت ہے یہ بڑی حدتک انتظامی ناکامی ہے، جس کو دستیاب وسائل کےاندررہ کرمکمل طورپربدلا جا سکتا ہے۔  اس مقصد کے لیے ایک خاص ڈسپلن کی ضرورت ہے۔  اس ڈسپلن میں رہ کراگر نظام انصاف کے اندر موجودہرچھوٹا بڑاپرزہ اپنا کردارادا کرے توصورت حال یکسربدل سکتی ہے۔

نظام انصاف ایک مربوط نظام ہے، جس سے وابستہ ایک ایک چھوٹے سے چھوٹے اہل کار کی غلطی، کوتاہی یابددیانتی پورے نظام کو ڈی ریلکرسکتی ہے۔  تیزرفتارانصاف کے لیے وسائل کی ضرورت ہے تاکہ ججوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔ افرادی قوت کی صلاحیت میں اضافہ ہو، کام کرنے کا ماحول بہترکیا جائے سکے، لیکن التوا کی روایتی وجوہات پرقابو پائےبغیرمحض وسائل سے معجزانہ نتائج کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ عدالتی نظام کےاندرموجود قباحتوں اورکمزوریوں پرقابوپانا کوئی اختایری بات نہیں بلکہ لازم ہے۔ اس میں نظام انصاف سے وابستہ چھوٹےاہل کاروں کورشوت، سفارش اوردباو سےبچانے کےلیےمناسب اقدامات کی ضرورت ہے۔

وکلاء کی صلاحیت اوراہلیت میں اضافے کے لیے لاء سکولوں کے نظام میں بنیادی تبدیلی سے لے کربار کےامتحانات اورلائسنسز کےاجرا کےطریقہ کار میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔  ججوں کی تقرری میں کسی بے ضابطگی کی شکایت، بدعنوانی کے کسی الزام یا ان کےخلاف کسی ریفرنس کی صورت میں فوری اقدامات اٹھانےاوراس طرح کے معاملات کوہنگامی بنیادوں پرنمٹانےسےنظام انصاف میں قابل ذکرتبدیلی آسکتی ہے۔

چونکہ عدالتوں کی طرف سے اس طرح کے معاملات کو التوامیں ڈالنے سے عوام کا نظام انصاف سےاعتماد اٹھ جاتا ہے۔  کسی بھی منظم سماج میں نظام انصاف ایک عام آدمی کی آخری امید ہوتی ہے۔  یہ امید ختم ہو جانے سے سماج زوال اورافراتفری کا شکار ہو جاتا ہے، اور لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لینے اورخود انصاف کرنے کے راستے پرچل نکلتے ہیں۔

فریڈرک ڈگلس نےکہا تھاجہاں بےانصافی ہوتی ہے، جہاں غربت مسلط کی جاتی ہے، جہاں جہالت کا راج ہوتا ہے، اورجہاں کسی ایک طبقے کویہ محسوس کرنے پرمجبور کیا جاتا ہے کہ سماج ان کا استحصال کرنے، لوٹنےاورذلیل کرنے کی ایک منظم سازش ہےتو ایسےسماج میں کسی کا بھی جان ومال محفوظ نہیں رہتا۔

Comments are closed.