مودودی کی فکر اور دو قومی نظریہ سے مایوسی کا سفر


ڈاکٹر منظور احمد کی یادیں (کراچی سے رام پور تک)۔
تبصرہ : لیاقت علی 

ڈاکٹر منظو راحمد نے کراچی یونیورسٹی سے بی۔اے آنرز اور ایم اے کرنے کے بعد لند ن یونیورسٹی سے فلسفہ میں پی۔ایچ۔ڈی کیا۔-1994 1954 تک سندھ مسلم کالج اور کراچی یونیورسٹی میں فلسفہ پڑھایا۔ کراچی یونیورسٹی کے اسلامی علوم کے ڈین، ہمدرد یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ انھوں نے’اقبال شناسی‘ اور ’اسلام چند فکری مسائل‘ پاکستان پس منظر اور پیش منظر کے علاوہ متعدد مقالے لکھے جو دنیا کے معروف رسائل میں شایع ہوئے۔

ڈاکٹر منظور احمد تقسیم ہند سے قبل ہندوستان کی ایک چھوٹی سی ریاست را م پورر میں گذشتہ صدی کی تیسری دہائی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد ریاست کی عدالت عالیہ میں محافظ دفتر کے محکمہ میں کام کرتے تھے۔ وہ گیارہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔میٹرک اور انٹر میڈیٹ رام پور سے پاس کرنے کے بعد دسمبر 1950 میں انھیں اس خیال سے کراچی بھیج دیا گیا کہ’مجھے اپنی تعلیم کے سلسلے میں کوئی رخ متعین کرلینا چاہیے‘۔

انٹرنس پاس کرنے سے قبل ہی میرا تعارف مولانا مودودی کی کتابوں سے ہوا اور 1950 تک ان کوئی چھپی ہوئی تحریر شائد ایسی ہوگی جو میں نے نہ پڑھ لی ہو‘۔ لیکن چند سال بعد ڈاکٹر منظور احمد کو ادراک ہوا کہ سماجی علوم کی کسی صنف میں بھی جماعت کے پاس افرادکی ضروری اور مکتفی ذہنی صلاحیت نہیں تھی کہ وہ ان کے دقیق مطالعہ کرکے کسی نتیجہ پر پہنچ سکیں۔لہذا ان تمام مضامین میں صحافیانہ عموم کو جومولانا مودودی کی طاقتور تحریروں میں ملتا ہے علم کا آخر مان لیا گیا اور زندگی کے ہر پہلو اور ہر مشکل کو حل کرنے ایک آسان اور کم معیار عمومی حل تلاش کرلیا گیا ہے۔ میرے ایک دوست ازراہ تفنن کہا کرتے تھے کہ جماعت اسلامی کے پاس ہر مسئلہ کا حل چھ آنے میں مل جاتا ہے یہ ان کتابچوں کی قیمت تھی جو مکتبہ جماعت اسلامی چھاپا کرتا تھا۔

مولانا مودودی کا ان دنوں موقف تھا کہ جدید تعلیمی ادارے دراصل ’قتل گاہیں‘ ہیں اور ان میں مسلمان نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ مولانا مودودی نے ’تعاون باالطاغوت‘ کا نظریہ دیا تھا جس کے مطابق جدید تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل اور ریاستی اداروں میں ملازمت اختیار کرنا طاغوتی قوتوں سے تعاون کرنے کے مترادف ہے تھا۔ مولانا مودودی کے اس نظریئے سے متاثر ہوکر نوجوانوں نے تعلیمی درسگاہیں چھوڑ دی تھیں اور خود کو جماعت کی سرگرمیوں کے لئے وقف کردیا تھا۔

ڈاکٹر منظور احمد کو ان کے والدین ڈاکٹر بنانے کے خواہاں تھے لیکن انھیں میڈیسن کے شعبے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ چنانچہ انھوں نے سندھ مسلم کالج میں بی۔اے آنرز(فلسفہ) میں پاس کرکے کراچی یونیورسٹی میں ایم اے فلسفہ میں داخلہ لے لیا۔’کراچی یونیورسٹی میں مختلف مضامین کے نصاب چونکہ علی گڑھ یونیورسٹی والوں نے بنائے تھے اس لئے وہ کم و بیش ان نصابوں کا چربہ تھے جو علی گڑھ میں پڑھائے جاتے تھے۔بعض اساتذہ تو ایسے بھی تھے جو اپنے زمانہ طالب علمی میں تیار کردہ نوٹس ابھی تک اپنے سٹوڈنٹس کو لکھواتے تھے‘۔

نصاب کو اپ ڈیٹ کیسے کرنا ہے اس بارے میں اپنے ایک استاد کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر منظور احمد لکھتے ہیں کہ ’عام روش کے بر خلاف ہر سال اپنے اپ کو اپ ڈیٹ کرلیتے ہیں اور وہ اس طرح کہ جس سال انھوں نے ایم۔اے پاس کیا ہے۔وہ ہر سال اپنے حساب کے حل کیے سوالوں کو نئی کاپیوں پر اتار لیتے ہیں اور اس طرح ہر سال اپ ڈیٹ ہوجاتے ہیں‘۔

ایم اے فلسفہ کرنے کے بعد ڈاکٹر پہلے کالج اور بعد ازاں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ سے منسلک ہوگئے۔ ان کے نزدیک ’کراچی یونیورسٹی میں علمی کام کرنا تقریبا نا ممکن ہے۔ پی ایچ ڈی کے تھیسس، کم از کم معاشرتی اور انسانی علوم میں کم لکھے گئے اور جو لکھے گئے ان میں اکثریت کم معیار کی تھی زیادہ کام اردو اور اسلامیات میں ہوا اور ان دونوں مضامین میں فارمولا فلموں کی طرح تھیسس لکھے جاتے رہے۔پہلے آنجہانی شاعروں اور ادیبوں پر اس نوعیت کے کہ’آنجہانی حیات وآثار‘۔ اس کے بعد بعض لوگوں نے خود اپنے آپ پر پی۔ایچ۔ڈی کروانا شروع کردی‘۔

پاکستان آکر ڈاکٹر منظور احمد نے خورشید احمد، خرم جاہ مراد اور چند دوسرے نوجوانوں کے ساتھ مل کر اسلامی جمعیت طلبہ کی بنیاد رکھی لیکن وہ جماعت اسلامی کی تنظیم کا حصہ کبھی نہ بنے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ’لوگ پوچھتے تھے کہ میں جماعت اسلامی میں کیا کررہا تھا۔سیاسی جواب تو یہ ہے کہ میں کبھی جماعت میں نہیں تھا لیکن سوال پوچھنے والے کا منشا یہ نہیں ہے کہ میں جماعت کا رکن تھا یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ جماعت جس طرح کا بند ذہن رکھتی اس میں،میں کس طرح فٹ ہوتا تھا۔سچی بات تو یہ ہے کہ جب میں جماعت سے متعارف ہوا تھااس وقت بھی میرا ذہن مستقل اپنے آپ سے حالت جنگ میں رہتا تھا۔(اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ)میں کچی سمجھ رکھنے والاجماعت کے لڑیچر کے طرز استدلال کے دھارے میں بہہ گیا‘۔

تعلیم اور عملی زندگی کے تجربات نے ڈاکٹر منظور احمد کومودودی کے فہم اسلام اور مسلمان قومیت کے تصور سے مایوس کیا اور وہ یہ سوچنے لگے کہ کیا وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے قیام کو ساٹھ سال ہوچکے ہیں لیکن ہم ابھی تک اپنے سیاسی معاملات کو جمہوری نہج پر چلانے میں ناکام رہے ہیں۔آخر پاکستان کی تعمیر میں کیا خرابی ہے کہ ایسا نہ ہوسکا۔ ان کے نزدیک بحیثیت مجموعی ہمارے ہاں تاریخ کی تنقیدی تفہیم کا شعورگہر انہیں ہے۔ہم تاریخی واقعات کو قضا و قدر سمجھتے ہیں۔اکثر تاریخی ہستیوں کی ضرورت سے زیادہ تکریم کرنے لگتے ہیں اور رفتہ رفتہ ان کو صنم بنا کر تقریباً پوجنے لگتے ہیں یا ان پر تنقیدی محاکمہ کرنے کو روا نہیں جانتے۔

تاریخی تبدیلیوں میں ہم صرف شخصیات کے رول کو تبدیلیوں کے عمل میں لازمی سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے تاریخی تفہیم اور معاشروں میں تبدیلی کے اصولوں سے ناواقف رہتے ہیں۔ہماری تہذیب میں عموما اور مذہب میں بالخصوص جو تقلیدی روایت مستحکم ہوگئی ہے اس کا سبب یہی ہے کہ ہم نے اپنے متقدمین کو ہر قسم کی غلطی سے مبرا جانا ہے‘۔

ڈاکٹر منظور احمد کے نزدیک آل انڈیا مسلم لیگ کے یکے بعد دیگر تین دساتیر میں سے کسی میں بھی اسلامی ریاست کا قیام اغراض و مقاصد میں شامل نہیں تھا اور پاکستان کا مطالبہ جیسا کہ آج کل مفروض کیا جاتا ہے”اسلام“ کے تحفظ کی خاطر کیا گیا تھا تو ہندوستانی مسلمانوں کا قصور تھاکہ ان کو اور ان کے”اسلام“ کو ہندوستان کی اکثریتی تہذیبی اکائی کے رحم و کرم پر چھوڑدیا جائے۔اس ژولیدہ فکری کے نتیجہ میں یہ قرارداد ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی تقسیم کا باعث بن گئی لیکن ’اسلام‘ اور مسلمانوں کی ایک تہائی آبادی کے لئے کوئی واضح اور محفوظ قلعہ بن سکی۔۔

سوچنے کی بات تھی کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمان کوئی معمولی اقلیت نہ ہوتے بلکہ اپنی تعداد کے اعتبار سے اور ممکنہ طور پرا اپنی فہم و فراست اور محنت کی بنیاد پر ہندوستانی قسمت کے فیصلوں میں برابر کے حصہ ہوتے۔ اتنی بڑی اقلیت کے حقوق کے نظر انداز کرنا ہندوستانی ریاست کے بس میں نہیں ہوتا۔ دراصل بر صغیر کے مسلمانوں کی دشواری یہ تھی کہ ان میں ایسے دانشور جو زمانہ جدید کے سماجی عمرانی،معاشی اور سیاسی مسائل سے واقف ہوں نہ ہونے کے برابر تھے۔(صفحہ 34)۔

ڈاکٹر منطوراحمد کے نزدیک تحریک پاکستان کے رہنما یہ بات سمجھنے سے قاصر رہے کہ اس اتحاد کی بڑی وجہ،اسلامی جذبہ کے ساتھ ہی، یہ بھی تھی کہ ایک ’غیر‘ موجود ہے جس کے خلاف مسلمان متحد ہوئے تھے یعنی ہندوستان کی دوسری تہذیبی اکائی اور ایک مرتبہ اس ’غیر‘ کے سامنے سے ہٹ جانے کے بعد،محض اسلامی جذبہ کے زیر اثر مسلمانوں کی ایک قوم کی صورت مجتمع رہنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں (صفحہ 35)۔

ڈاکٹر منظور احمد سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا مسئلہ اس ابہام سے پیدا ہوا کہ آیا ایک نئے ملک کا قیام اسلامی نظام کے قائم کرنے کے لئے ضروری تھا، یا مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے؟ اور کیا واقعی مسلمانوں کے حقوق متحدہ ہندوستان میں اتنی کثیر اقلیت ہونے کے باوجود پائمال کئے جاسکیں گے نہیں؟ان باتوں پر سیر حاصل سوچ بچار نہیں کی گئی بلکہ وقتی ضرورتوں کے پیش نظر ان کو غالباً قصداً مبہم رکھا کر کام چلایا جاتا رہا۔ عوامی تحریک کو ہوا دینے کے لئے مسلمانوں کا سب سے بڑا جذباتی محرک اسلام کی حفاظت کا نعرہ اور اسلامی نظام کا قیام تھا۔مسلمانوں کی رومانی طبیعت میں اسلامی نظام کے ذریعہ موجودہ زمانہ میں ایک ارضی جنت بنانے کی خواہش بڑی شدت سے موجزن تھی۔ قائداعظم نے بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لئے اس محرک کو استعمال کرنے میں کوئی قباحت محسو س نہیں کی۔(صفحہ 36)۔

ڈاکٹر منطور احمد کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کا مقصد مغربی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ برطانوی حکومت کی سرکاری دستاویزات ان کی مدت اخفاء ختم ہونے کے بعد اب لوگوں کی دسترس میں ہیں۔ برطانیہ اور مغربی طاقتوں کی دلچسپی پاکستان کی تشکیل میں اس لئے تھی کہ ان کو آنے والے دنوں میں مشرق وسطی اور روس دونوں میں اپنے مفادات کی حفاظت کے لئے جغرافیائی اعتبار سے ایک ایسا ملک مہیا ہوسکے گا جس کو وہ آسانی سے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرسکیں گے اور ان کو شمالی مغربی علاقوں میں ہوائی اڈے اور کراچی کی بندرگار ایک سمندری سہولت کے طور پر میسر ہوسکیں گے۔پاکستان کے قیام میں یہ سارے محرکات کام کر رہے تھے جو اس نئی ریاست کے لئے پیچیدہ اور جلد حل نہ ہونے والے مسائل کا پیش خیمہ تھے۔ ماونٹ بیٹن کی یادداشتوں میں 7۔ جولائی 1947 کی ایک دستاویز ملتی جس کے سرنامہ پر ’انتہائی خفیہ‘ لکھا ہے اور جس پر کسی کے دستخط نہیں ہیں اس میں لکھا گیا ہے کہ ’مشرق وسطی اور اس کے تیل کے ذخائز کے لئے کسی بھی دفاعی منصوبہ میں وادی سندھ،مغربی پنجاب اور بلوچستان بڑی اہمیت کے مالک ہیں۔ سوویت یونین کی ممکنہ جارحیت کے مقابلہ کے لئے کراچی ہی وہ بندرگاہ ہے جہاں سے دفاعی عمل ممکن ہے‘(صفحہ 38)۔

ڈاکٹر منظور احمد اپنی یادوں میں مودودی کی فکر سے مایوسی کا اظہار کرتے اور دو قومی نظریہ بارے سوالات اٹھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان بنانے کا مقصد مبہم اور غیر واضح تھا اور متضاد محرکات کا شکار تھا اور اگر پاکستان بنانے کا مقصد ’اسلام‘ تھا تو اس کے خدوخال کیا تھے؟ کیا وہ جو قائد اعظم کی مختلف اوقات میں کی گئی تقریروں میں مبہم انداز میں ملتا ہے یا وہ جس کی وکالت مولانا مودودی کررہے تھے یا سیدھا سادا روایتی شریعت کا نفاذ جس کا تجربہ افغانستان میں (طالبان کے ہاتھوں) م ہوا تھا؟ اور یہ وہ امور تھے جس کے لئے مسلمانوں کو وقت ملا اور نہ ذہنی صلاحیت میسرتھی جو کارگر ہوسکتی(صفحہ40)۔

ڈاکٹرمنظور احمد نے رام پور سے لاہور پہنچنے پر مولانا مودودی سے اپنی پہلی ملاقات کا جو احوال لکھا ہے وہ مولانا کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔لکھتے ہیں کہ ’بڑی تمنا سے اچھرہ میں مولانا مودودی کا گھر دریافت کرتا ان کے بنگلہ پہنچ گیا۔ملازم سے اطلاع کرائی اور برآمدہ میں کرسی پر انتظار میں بیٹھ گیا۔ذہن میں چھوٹے سے شہر کا ایک چھوٹا سا تصور تھا۔کبھی میں جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا ابواللیث کے گھر گیا، کنڈی کھٹکائی توخود مولانا برآمد ہوتے تھے اور حسب موقعہ اورضرورت یا تو کھڑے کھڑے یا بٹھا کربات کرلیتے تھے۔یہی صورت حال دوسروں بزرگوں کی تھی۔ اب مجھے یاد نہیں لیکن شائد گھنٹہ بھر انتطارکےبعد مولانا برآمد ہوئے۔میں نے ادب سے سلام کیا اپنا تعارف کرایا اور ہندوستان کے اکابرین کا سلام پہنچایا۔مولانا نے شائد ہی کوئی بات کی ہو اور ملاقات میں کسی جذبہ خوشی کا اظہار کیا ہو یا چہرے پر مسکراہٹ ظاہر ہوئی ہو۔ہم تو یہ سنتے آئے تھے کہ مسکرادینا صدقہ ہے لیکن مولانا کے بہت ہی سرد رویہ سے اس وقت بہت دل برداشتہ ہوا اور اجازت چاہی۔خیال ہوا کہ شائد مولانا رسماً ہی کہیں کہ ٹھہریں چائے شربت کچھ پی لیں لیکن ایک گھنٹہ کا انتظاردومنٹ کی ملاقات پرختم ہوگیا۔ مولانا کا وہ ہیولا جو ذہن میں قائم ہوا تھاہوامیں تحلیل ہوگیا(صفحہ98 )۔

ڈاکٹرمنظوراحمد اپنی خود نوشت میں مودودی کے نظریات اورپاکستان کی فکری بنیاد سے مایوس اوربددلی کا اظہار کرتے ہیں۔

One Comment