علاقائی خطے کے قومی ہیروز نظر انداز کیوں۔۔۔؟

پائند خان خروٹی

یہ بات سن کر آپ سب کو حیرت ہوگی کہ پاکستان میں صرف وه ترقی پسند ادب وشاعری قابلِ قبول ہیں جو اردو زبان میں دستیاب ہیں جبکہ دیگر قومی زبانیں مثلاً پشتو، سندھی، بلوچی اور سرائیکی وغیرہ میں موجود جو معیار ومقدار میں اردو سے زیادہ ترقی پسند ہیں کو یہ لوگ خاطر میں بھی نہیں لاتے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں شروعات سے لیفٹ کے نام پر تمام ثمرات، انعامات اور اکرامات سے پنجاب بالخصوص لاہور والے ہی لطف اندوز ہوتے آرہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے انٹرنیشنل سیمیناروں اور کانفرنسوں میں بھی وہی لوگ شرکت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ بدبختانہ ہمارے اہل علم و قلم جس شہر میں پیدا ہوتے ہیں، ساٹھ/ستر برس کے بعد اسی میں اس پر زندگی کی شام آجاتی ہے۔

یہاں ہزاروں سالوں کی تاریخ وتہذیب رکھنے والی ہماری قومی زبانوں کو اخوانی، وہابی اور ٹراٹسکائیڈ بھی علاقائی زبانیں کہتے آرہے ہیں۔ نامور ترقی پسند پشتون و بلوچ ادیبوں اور سیاست دانوں پر ایک سیمینار کے انعقاد کی زحمت بھی نہیں کرتے جبکہ اپنی باری پر کراچی سے لیکر لاہور تک سیمیناروں اور ادبی میلوں کو کامیاب بنانے کیلئے پشتون، بلوچ اور کشمیری جوانوں کے چندوں اور توانائیوں کو بروئے کار لاتے رہتے ہیں۔

کلچر اور لٹریچر کیلئے مختص وفاقی اور صوبائی فنڈز، مواقع اور سہولیات بھی انہیں میسر ہیں۔ سردست تو نہ لیفٹ کے نام پر بٹورنے والوں کو کوئی دردواحساس ہیں اور نہ ہی مذہب اور ٹراٹسکائیڈ کے نام پر جذباتیت میں مبتلا ہمارے جوانوں کو آلہ کار بنے سے انکار۔

برصغیرپاک وہند کی تحریک آزادی کے صف اول کے ہیرو کاکاجی صنوبرحسین مومند، لینن پرائز ہولڈر ڈاکٹر سیف الدین کچلو (کشمیری)، ریڈ مولانا عبدالحميد بھاشانی(بنگلہ دیش)، سرحدی لینن عبدالرحیم پوپلزی، مارکسی دانشور افضل خان بنگش، عبدالرحیم مندوخيل، شیخ ایاز سندھی، ماما عبداللہ جان جمالدينی، بلوچ، شیر علی پاچا اور قلندر مومند وغیرہ کی گرانقدر خدمات، کارناموں اور قربانیوں پر کراچی سے لیکر لاہور تک سب لیفٹ کے دعویدار خاموش ہیں۔

واضح رہے کہ مندرجہ بالا شخصیات ترقی پسندی اور انسان دوستی کے ساتھ ساتھ کرداروشخصیت کے حوالے سے بھی باغ وبہار ہیں۔ اس ضمن میں اگر لاہور، اسلام اور کراچی کے لیفٹسٹوں کے قلم اور قدم حرکت میں نہیں آتے تو متبادل راستے اور طریقے کیا ہو سکتے ہیں یا ہم کس طرح اپنی مدد آپ کے تحت ان باغ وبہار شخصیتوں کا حق ادا کر سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ مندرجہ بالا شخصیات بیشک قوم اور جغرافیہ کے حوالے سے مختلف اقوام اور ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں مگر ترقی پسند افکار و خيالات اور بلند کرداروشخصیت کی وجہ پورے خطے کے ہیروز ہیں۔

پوسٹ میں اختصار کے ساتھ چند مثالیں پیش کی گئیں ہیں لیکن ان کی تعداد اس سے بڑھ کر ہیں ۔ ان کو ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش وغیرہ کے نصاب میں شامل کرنا، ان کے نام سے اعلیٰ تعلیمی ادارے منسوب کرنا اور ان کیلئے سالانہ بجٹ میں فنڈز مختص کرنے انتہائی ضروری ہے۔

اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجئے۔

One Comment