عرب امارات اور اسرائیل امن معاہدہ، بائیں بازو کے کارکنوں کی خدمت میں

لیاقت علی

پاکستان میں بائیں بازو کے تجربہ کار کارکن اپنے سیاسی اور سماجی تجزیوں کی بنیاد مارکسی اصولوں پر استوار کرتے ہیں۔ انھوں نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین ہونے والے معاہدے کے پس منظر میں سوشل میڈیا میں لکھا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے متراد ف ہے۔مزید یہ کہ اسرائیل ایک کلونیل پراجیکٹ ہے اور جب تک عرب ممالک میں آمریتیں موجود ہیں اس وقت تک فلسطینوں سے غداری ہوتی رہے گی۔

ایک سینئرکامریڈ کا یہ نقطہ نظر پڑھ کر حیرانی ہوئی کہ ان جیسا باشعور سیاسی کارکن ایسا موقف اختیار کرئے جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کا قیام اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت ممکن ہوا تھا۔ اس مینڈیٹ کی خلاف ورزی کس نے کی تھی؟ اسرائیل نے یا عربوں نے؟

اسرائیل پر اس کے قیام کے فوری بعد حملہ عربوں نے کیا تھا نہ کہ اسرائیل نے عربوں پر جارحیت کی تھی۔ جوں جوں فلسطینی قیادت اور عرب ممالک اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی لائن پر گامزن رہے اسرائیل زیادہ سے زیادہ جارح ہوتا چلا گیا اور آج صورت حال یہ ہے کہ اس نے 1967 میں گولان پہاڑیوں پر جو قبضہ کیا تھا اس نے مستقل طورپر اس کو اسرائیل کا حصہ بنالیا ہے۔

اسرائیل کا ہوا دکھا کر عرب ممالک اپنی بادشاہتیں اور آمریتوں کو قائم اور دوام بخشتے ہیں۔ اسی طرح جس طرح پاکستان میں بھارت کا ہوا دکھا کر سیاسی جماعتوں اور بائیں بازو کے کارکنوں کی جمہوری جدوجہد کو ناکام بنانے اور ان پر پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اسرائیل کو تسلیم کرنے سے عرب ممالک کے عوام کی اپنے جمہوری حقوق کے لئے جدوجہد تیز ہوگی کیونکہ قوم پرستی کے نام پر عرب عوام کو وہاں کے بادشاہ اور آمر گمراہ کرتے چلے آرہے ہیں تسلیم کرنے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا اورعرب عوام اسرائیل کی بجائے اپنی بادشاہتوں اور آمریتوں کو اپنی جدوجہد کا ٹارگٹ بنائیں گی۔

بائیں بازو کے کارکنوں سے ماضی کا ایک واقعہ شیئر کرنا چاہتا ہوں جب 1977 میں مصر اور اسرئیل کے مابین کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا تو دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیوں بالخصوص پرو سویٹ پارٹیوں نے اس معاہدے کو سامراجی معاہدہ کہہ کر مسترد کردیا تھا لیکن پاکستان میں ایک واحد آواز سی آر اسلم کی تھی جنھوں نے پارٹی کے ترجمان ہفت روزہ عوامی جمہوریت میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی حمایت میں مضمون لکھا۔

ہم جیسے کارکنوں کو بہت حیرانی ہوئی کہ ساری کمیونسٹ دنیا اس معاہدے کی مخالفت کررہی ہے اور ہمارے لیڈر اور استاد اس معاہدے کی حمایت کررہے ہیں یہ کیا بات ہوئی۔ ان سے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا اور کیوں لکھ دیا ہے انھوں نے جو جواب دیا وہ مجھے آج تک یاد ہے کہنے لگے کہ ممالک کے مابین ہونے والے امن معاہدوں کی ہمیں حمایت کرنا چاہیے کیونکہ امن معاہدے قوم پرستی کو جو طبقاتی جدوجہد کی دشمن ہے پیچھے دھکیلتے اور لوگوں کی جمہوری حقوق اور سماجی انصاف کی تحریک کو آگے بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔

لہذا بائیں بازو کے کارکنوں سے ایک مودبانہ سوال کیا اسرائیل کی کمیونسٹ پارٹی اس معاہدے کی مخالف ہے کیا وہ اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتی ہے؟ وہ کامریڈ ہی کی طرح یہودی بنیاد پرستوں کے خلاف لڑ رہی ہے جس طرح ہمارے کامریڈ پاکستان میں مذہبی بنیاد پرستوں کے خلاف ثابت قدمی سے مصروف جدوجہد ہیں۔

Comments are closed.