استنبول سے تل ابیب تک

طارق احمد مرزا

سولہ اگست 2020 میرے لیے حیرت اور مایوسی سے لبریز ترین دن ثابت ہوا۔ دراصل  کل اخبارات میں ترکی کے صدر محترم طیب اردوآن صاحب کی مبینہ دھمکی پڑھنے کو ملی تھی جس میں انہوں نے متحدہ عرب امارات کو اسرائیل کے ساتھ دوطرفہ رسمی تعلقات کے اعلان کو منافقتقرار دیتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ وہ اس مسلم ملک کی اس حرکت پر اس کے ساتھ قطع تعلق کرلیں گے۔

تو امید یہ تھی کہ برادر مسلم مملکت کے ساتھ تعلقات کو قطع کرنے سے پہلے یہ بزرگ ترک رہنما امت مسلمہ کے لئے اپنی غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوراً یہودی مملکت کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری وساری اپنے دوطرفہ تعلقات کو منقطع کرنے کا فیصلہ اور اعلان فرمائیں گے۔

 لیکن جب میں نے محض تحقیق کی غرض سے استنبول سے تل ابیب جانے کے لیے پروازوں کا معمول چیک کیا تو معلوم ہوا کہ استنبول سے تل ابیب کے لئے کوئی ایک پرواز بھی بطور احتجاج منسوخ  نہیں کی گئی ،جیسا کہ عموماً کیا جاتا ہے ۔نہ صرف یہ بلکہ معلوم ہوا کہ ہر ہفتہ تقریباً 177 پروازیں استنبول سے تل ابیب کے لئے حسبِ معمول دستیاب ہیں !۔

پروازیں تو ایک طرف، ترکی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ اور کئی قسم کے جاری وساری دوطرفہ رسمی اور غیررسمی تعلقات کو بھی اسی طرح سے جاری وساری رکھا جا رہا ہے۔تو یہ جان کر یقین کریں بہت ہی مایوسی ہوئی۔یہی عمل اگر کوئی دوسرا کرے تو منافق لیکن آپ خود کریں تو غیر منافق ؟۔ یا روحِ ارتغرل یہ ماجرا کیا ہے؟۔بقول شاعر ؎

تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی

وہ تیرگی جو مرے نامہِ سیاہ میں تھی

قرآن مجید میں تو لکھا ہے کہ جو کچھ تم دوسروں کو کہتے ہو، خود اس پر عمل کیوں نہیں کرتے،مگر خیر اس کی یاددہانی کروانےکی جرا ت ہم میں

نہیں ،نہ ہی یہ ہماری ڈیوٹی ہے۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پوری دنیا اس  ڈھٹائی اور دوعملی پر انگشت بدنداں بھی ہے اور انگشت نمائی بھی کررہی ہے۔  پر ساہنوں کی !۔

واضح رہے کہ خود ترکی نے اسرائیل کے ساتھ یہ معاہدہ بھی کررکھا ہے کہ وہ نیٹو کے اہم فیصلوں والے اجلاسوں میں اسرائیل کی پیش کردہ تجاویز کو ویٹو نہیں کیا کرے گا۔

جبکہ روزنامہ صباح کے مطابق  ترکی اسرائیل کا باہمی تجارتی حجم محترم طیب اردوان صاحب کی کوششوں سے چھ بلین ڈالرسالانہ سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ان میں گزشتہ 6 برسوں میں 364 ملین امریکی ڈالر کا وہ  جدید اسلحہ بھی شامل ہے جو ترکی نے اسرائیل کو فروخت کیا۔اسرائیل اس اسلحہ کو کہاں کہاں استعمال کرتا ہے وہ ساری امہ کو معلوم ہے۔

ادھر ایران کا مبینہ رد عمل دیکھیں۔کہتے ہیں امارات نے مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجرگھونپا ہے۔ ہم امارات کوسبق سکھا د یں گے وغیرہ وغیرہ۔

جناب پہلے اپنی بغل میں موجود ترکی کی تو خبرلیں۔اسی طرح مصر کی خبر لیں،پھر اردن کی خبر لیں جن کے اسرائیل کے ساتھ کتنی ہی دہائیوں سے دوطرفہ تعلقات قائم ہیں۔امارات تو کل کا بچہ ہے۔

ایران کے بعد پھر اپنے پاکستان کی ایک سیاسی مذہبی جماعت کے سربراہ کا بھی بیان پڑھیں۔ تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں امارات کا فیصلہ امہ کا فیصلہ نہیں۔

جی ہاں جب ایران نے شاہ کے زمانہ میں اسرائیل کو تسلیم کیا تھا تو وہ بھی امہ کا فیصلہ نہیں تھا۔پھر ترکی نے تسلیم کیا تو وہ بھی امہ کا فیصلہ نہیں تھا۔پھر مصر اور اردن نے تسلیم کیا تو وہ بھی امہ کا فیصلہ نہیں تھا۔اسی طرح جب موریطانیہ نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور دوطرفہ سفارتی تعلقات قائم کئے تو وہ بھی امہ کا فیصلہ نہیں تھا۔خود فلسطینی ریاست کے سربراہ یاسر عرفات نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو وہ بھی امہ کا فیصلہ نہیں تھا۔اسی طرح مالدیپ نے جب اسرائیل کو تسلیم کیا تو وہ بھی مسلم امہ کا فیصلہ نہیں تھا۔اور اسی طرح قطر نے اور پھردیگر مسلم اکثریتی ممالک آذربائیجان، ترکمانستان،کرغیزستان،قزاقستان،ازبکستان،عمان،بحرین،مراکش وغیرہ نے اسرائیل کے ساتھ براہ راست اور بالواسطہ تعلقات استوار کئے تو وہ بھی امہ کا فیصلہ نہیں تھا ۔

جی ہاں بالکل نہیں ۔ اور پھرجب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیرخارجہ نے اسرائیلی ہم منصب سے ترکی میں اعلانیہ ملاقات کی تو وہ بھی امہ کا فیصلہ نہیں تھا۔امارات کے اعلان کے بعد قائد اعظم کے خودساختہ سیاسی صاحبزادہ اور اسی طرح  خادم حرمین شریفین کا کوئی دوٹوک بیان سامنے نہیں آیا تو یہ بھی امہ کا فیصلہ نہیں ہے۔

اجی چھوڑیئے رہنے بھی دیں اب۔ دیکھ لی سب کی منافقت ۔

ویسے آپس کی بات ہے کہ کسی بھی  مسلم ملک کی کوئی نئی  منافقت نہ تو اسرائیل کوکوئی نیا فائدہ پہنچاپائےگی اور نہ مسلمان ممالک یا امہکو کوئی نیا نقصان ۔ اسرائیل سمیت سب نے اپنے اپنے الو پہلے سے سیدھے کر رکھے ہیں ۔ایک ہم ہی ہیں جو نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔

Comments are closed.